کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 37
گمان ہو کہ وہ اس میں پڑ جائے گا(تب اس پر نکاح واجب ہو جائے گا)[1] اور اگر اس میں شادی کی قوت تو ہو لیکن بیوی پر خرچہ کرنے کی سکت نہیں تو پھر اسے اللہ تعالیٰ کا مندرجہ ذیل فرمان کافی ہے: ﴿وَليَستَعفِفِ الَّذينَ لا يَجِدونَ نِكاحًا حَتّى يُغنِيَهُمُ اللّٰهُ مِن فَضلِهِ) ’’اور جو لوگ نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ پاکدامنی اختیار کریں حتی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔‘‘ اور اسے چاہیے کہ وہ روزے بھی کثرت سے رکھے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جس میں نکاح کی طاقت نہیں وہ روزے رکھے کیونکہ وہ اس کے لیے ڈھال ہیں۔‘‘[2] حضرت عمر﷜ نے ابو الزوائد کو کہا تھا،یا تو تجھ میں شادی کرنے کی طاقت ہی نہیں یا پھر تو فسق وفجور کی وجہ سے شادی نہیں کرتا۔[3] اور شادی کے بغیر رہتے ہوئے(غیر محرم لڑکیوں کو)دیکھنا یا بوس وکنار کر کے گناہوں میں مبتلا ہونے والے پر بھی شادی کرنا واجب ہے،جب مرد یا عورت کو یہ علم ہو یا اس کا ظن غالب ہو کہ اگر وہ شادی نہیں کرے گا تو زنا کا مرتکب ہو گا یا پھر کسی اور غلط کام میں پڑے گا یا پھر ہاتھ سے غلط کاری(یعنی مشت زنی)کرے گا تو ایسے مرد وعورت پر بھی شادی کرنا واجب ہے۔ اور ایسے شخص سے بھی شادی کا وجوب ساقط نہیں ہوتا جسے یہ علم ہو کہ وہ شادی کر کے بھی ممنوع کام ترک نہیں کرے گا،اس لیے کہ وہ شادی کی حالت میں حلال کام کی وجہ سے حرام اور ممنوع کام سےبچا رہے گا،اگرچہ بعض اوقات اس حرام کام کا بھی ارتکاب ہو سکتا ہے لیکن غیر شادی تو ہر وقت معصیت وگناہ کے لیے فارغ ہوتا ہے۔ اور اب موجودہ دور کے حالات اور جو کچھ اس میں فسق وفجور اور فحش کام پائے جاتے ہیں ان کو دیکھنے اور غور وفکر کرنے والا تو یقینی طور پر مطمئن ہو گا کہ ہمارے دور میں باقی دوسرے ادوار کی بہ نسبت شادی کرنا زیادہ واجب ہے۔
[1] [دیکھیں:الانصاف: کتاب النکاح : احکام النکاح) [2] [بخاری (5065) مسلم (1400)] [3] [دیکھیں:فقه السنة(2؍15۔18)]