کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 364
جب مطلقہ(رجعیہ)کے لیے رہائش ثابت ہے تو جو نکاح میں ہے اس کے لیے تو بالا ولیٰ واجب ہو گی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: "اوران کے ساتھ طریقے کے ساتھ بودو باش میں ہی رکھا جائے گا اور لوگوں کی نظروں سے اسے چھپانے کے لیے بھی رہائش ہی ضروری ہے پھر مال و متاع کی حفاظت اور عورت کے ساتھ تعلقات کے لیے بھی رہائش کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔[1] کاسانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ اور اگر خاوند اپنی بیوی کو اس کی سوکن کے ساتھ رکھنا چاہے یا پھر اپنے کسی رشتہ دار مثلاًوالدہ بہن یا دوسری بیوی کی بیٹی یا کسی اور رشتہ دار کے ساتھ مگر بیوی ان کے ساتھ رہنے سے انکار کردے تو خاوند پر ضروری ہے کہ اسے علیحدہ گھر میں رکھے۔اور اگر وہ کسی بڑے سے گھرمیں اسے ان کے ساتھ رکھے کہ جس میں ہر چیز کا بالکل علیحدہ انتظام ہو تو پھر وہ علیحدہ مکان کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔[2] اس بنا پر خاوند کے لیے جائز ہے کہ وہ آپ کو گھر کے کسی ایسے لگ کمرے میں رہائش دے جہاں پر نہ تو کسی فتنے ڈر ہواور نہ ہی بالغ مردوں کے ساتھ خلوت کا خدشہ ہو۔البتہ خاوند کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ آپ کو گھر کے باقی افراد کے کام کرنے پر بھی مجبور کرے یا اس پر مجبو رکرے کہ آپ ان کے ساتھ کھائیں یا پئیں۔ اور اگر وہ استطاعت رکھتا ہو تو آپ کے لیے علیحدہ گھر کا بندو بست کرے اسی میں خیر ہے لیکن آپ کی ساس اور سسر بوڑھے ہیں اور اپنے بیٹے کے محتاج ہیں اور ان کی خدمت کرنے والا اس کے علاوہ اور کوئی نہیں اور ان کی خدمت وہیں رہ کر کی جاسکتی ہے تو پھر اس پر واجب ہے کہ وہ وہیں رہے آخر میں ہم اپنی مسلمان بہن سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ صبر کریں اور اپنے خاوند کو راضی کرنے والے اعمال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اس کے والدین کی خدمت میں حتی الوسع تعاون کریں حتی کہ اللہ تعالیٰ آسانی پیدا فرمادے۔اللہ تعالیٰ ہمارے نبی پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)(شیخ محمد المنجد)
[1] ۔مزید دیکھئے :[المغنی لابن قدامہ 237/9] [2] ۔دیکھئے :[بدائع الصنائع 23/4]