کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 362
میری ساس کا کہنا ہے کہ اب اس کے اور بھی زیادہ حقوق ہیں اور میرے میکے والوں کے مجھ پر کوئی حقوق نہیں رہے اور مجھ پر یہ لازم ہے کہ میں نے جہاں بھی جا نا ہو یا پھر جو بھی کام کرنا ہو اس کے لیے سا س کی اجازت ضروری ہے۔مجھے یہ تو علم ہے کہ میں اپنے خاوند سے ہر کام کی اجازت لوں اور میں یہ کرتی بھی ہوں لیکن میرے خیال میں میری سا س کا صرف اتنا حق ہے کہ میں اسے ضرور بتاؤں کہ اپنے گھر کے معاملات کو کس طرح چلا رہی ہوں۔میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس کی وضاحت فرمائیں۔ جواب۔آپ کی ساس اور نندوں کا آپ پر یہ حق ہے کہ آپ ان کے ساتھ اچھا برتاؤکریں ان سے صلہ رحمی اور ان کے ساتھ احسان و نیکی کی حتی الوسع کو شش کریں۔مگرآپ کی ساس کا جو یہ ذہن ہے کہ آپ ہر معاملے میں اس کی اجازت لیں تو یہ صحیح نہیں اور نہ ہی علمائے کرام نے اسے بیوی کے ذمہ خاوند کے حقوق میں ذکر کیا ہے بلکہ آپ پر واجب یہ ہے کہ آپ خاوند کی اطاعت کریں اور اس سے اجازت طلب کریں اور اس کی بھی اطاعت اس وقت تک ہے جب تک وہ برائی کا حکم نہ دےا گر وہ برائی کا حکم دے تو اس میں اس کی اطاعت نہیں ہو گی۔ لیکن یہاں یہ بات نہ بھولیں کہ آپ کو اپنی سا س کےتجربات اور اس کی پندونصائح سے فائدہ اٹھا نے میں کوئی ممانعت نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی حرج ہے اسی طرح اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ آپ اپنی ساس کی تھوڑ ی بہت تنگی کو برداشت کریں تاکہ اس سے آپ کے خاوند کی عزت ہو سکے اور ایسا کرنا آپ کے لیے باعث اجرو ثواب بنے۔ اور آپ کی ساس کا یہ کہنا کہ اب آپ کے میکے والوں کا آپ پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں رہا صحیح نہیں بلکہ ان کے ساتھ صلہ رحمی احسان اور نیکی کرنے کا حق ابھی بھی باقی ہے اسی طرح وقتاً فوقتاًانہیں ملنے جانا بھی ان کا حق ہےاور خاص کروالدین کے ساتھ ملاقات اور احسان تو ضروری ہے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ آپ کے دلوں میں الفت پیدا فرمائے اور آپ کو ہدایت سے نوازے۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد) اگر عورت سسرال والوں کے ساتھ نہ رہنا چاہتی ہو؟ سوال۔میں ساتھ برس سے خاوند کے گھروالوں کے ساتھ رہ رہی ہوں مگر اپنے سسر کے ساتھ موافقت نہیں کرسکی۔جس بناپر میں نے خاوند سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم اس فلیٹ سے کہیں اور منتقل ہو جائیں اسے یہ بات بہت ناگوارگزرتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں اپنے والدین کے بغیر نہیں رہ سکتا۔لیکن حالت یہ ہے کہ میں بھی