کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 36
اور والدین کو اس کار خیر میں جلدی کرنے کی فضیلت کے بارے میں بتائیں کہ اس کے ذریعے نظریں نیچی ہو جاتی ہیں اور شرمگاہ کی بھی حفاظت ہوتی ہے،چاہے وہ عقد نکاح کر دیں اور رخصتی میں تاخیر کریں کیونکہ عقد نکاح کرنا اور رخصتی میں تاخیر خالی منگنی سے بہتر ہے۔
آپ کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ مرد اپنی منگیتر کے لیے اجنبی ہے،اس کے لیے صرف منگنی کے وقت اسے دیکھنا جائز ہے اس کے بعد وہ اسے نہیں دیکھ سکتا اور اگر اس کا عقد نکاح ہو چکا ہے تو وہ اس کی بیوی بن چکی ہے اب وہ اس کے لیے حلال ہے جس طرح کہ خاوند کے لیے حلال ہوتی ہے لیکن افضل اور بہتر یہ ہے کہ وہ رخصتی سے قبل اس سے ہم بستری نہ کرے تاکہ فساد اور فتنہ سے بچا جا سکے اور اس میں جو عرف اور عادت بن چکی ہے اس کا لحاظ رکھا جا سکے۔(شیخ محمد المنجد)
مرد پر کب شادی واجب ہوتی ہے؟
سوال:کیا مردوں کے لیے شادی کرنا واجب ہے؟
جواب:مردوں کے احوال ومعاملات مختلف ہونے کی وجہ سے شادی کا حکم بھی مختلف ہو گا،جو شادی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور اسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو تو ایسے شخص پر شادی کرنا واجب ہے،کیونکہ نفس کو حرام سے بچانا اور اس کی عفت وعصمت واجب ہے جو کہ شادی کے بغیر ممکن نہیں۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وہ شخص جو شادی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اور بغیر شادی کے رہنے سے اسے اپنے نفس اور دین میں ضرر ونقصان کا اندیشہ ہو اور اس نقصان سے شادی کے بغیر بچنا ممکن نہ ہو تو ایسے شخص پر شادی کےوجوب میں کوئی بھی اختلاف نہیں ہے۔
اور مرداوی نے اپنی کتاب ’الانصاف‘ میں کہا ہے:
جسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو اس کے حق میں نکاح کرنا واجب ہے اس میں ایک ہی قول ہے کوئی دوسرا قول نہیں۔یہاں پر عنت سے مراد زنا ہے اور صحیح بھی یہی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زنا سے ہلاکت میں پڑنے کو العنت کہتے ہیں۔دوم اس کا مطلب ہے کہ اسے اپنے حرام کام میں پڑنے کا اندیشہ ہو،جب اسے یہ علم ہو یا اس کا