کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 343
ہو اور ہر اس فعل سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے جو اس کے خاوند کو پریشان کرتا ہو۔وہ یہ کوشش نہیں کرتی کہ اپنی شخصیت کو خاوند پر ٹھونسنے کیونکہ مرد کے پاس تو سلطہ ہے اور بعض مختلف موقعوں پر اسے نقص اور کمی کا احساس دلانا اسے غصہ دلاتا ہے۔مثالی بیوی وہ ہے جسے ازدواجی موافقت کا فن آتا ہو اور خاوند کی اطاعت اس کے احترام اور اپنی شخصیت میں توازن قائم رکھ سکتی ہو۔ آپ کا اس کی طرف سے لوگوں سے بات چیت کرنا شرعاً جائز ہے اس لیے کہ وہ آپ کی قومی زبان نہیں جانتا لیکن جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اس طرح کے کام میں آپ نہایت حکمت سے کام لیں۔آپ ایسا کام کرتے وقت اسے یہ احساس نہ ہونےدیں کہ اس میں نقص یا کمی ہے اور اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔بلکہ لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے آ پ بار بار اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس سے مشورہ طلب کریں اور اس کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہ کریں۔اور جس سے آپ بات کررہی ہوں وہ آپ کے خاوند کی قدر وقیمت محسوس کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اسے یہ احساس دلائیں کہ وہ اپنی زبان میں آپ سے بھی زیادہ ماہر ہے۔اور آپ دونوں ایک د وسرے کو مل کر مکمل کرتے ہیں۔آپ اسے انگلش سکھانے میں اس کا تعاون کریں اور وہ آپ کو ا پنی زبان سکھانے میں آپ کا تعاون کرے۔ہم آپ کو یہی نصیحت کریں گے اور یہی ایک چیز ہے جو اس کے غصے کو روک سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو ایک صالحہ اور نیک بیوی بننے کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ پر واجب کیا ہے اس کی معرفت رکھیں اور اس پر عمل کریں۔نیز یہ بھی ضروری ہے کہ آپ فاضلہ قسم کی عورتوں اور صحابیات کے اخلاق ومعاملات کو نبھانے میں اچھے اور احسن انداز کو بھی جانیں۔یہ چیز آ پ سے کوشش کی محتاج ہے حتیٰ کہ آپ اس کی عادی ہوجائیں لیکن یہ چیز کوئی ناممکن نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس طرح فرمایا ہے: "علم تو سیکھنے سے ہی حاصل ہوتا ہے علم وبردباری سے اختیار کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے اور جو کوئی بھی خیر تلاش کرتا ہے اسے خیر عطا کی جاتی ہے۔اور جو کوئی بھی شر اور برائی سے بچتا ہے اسے اس سے بچا لیا جاتا ہے۔"[1] اسی طرح کی کچھ صفات کے بارے میں ایک عقل مندماں نے اپنی بیٹی کو شادی کے وقت وصیت کی تھی اور کہاتھا کہ: میری پیاری بیٹی تو اس گھر کو چھوڑ رہی ہے جہاں تو پیدا ہوئی اور تیرا وہ گھر جہاں تو ایک ایسے شخص کے پاس جارہی ہے جسے تو جانتی بھی نہیں اور ایسے ساتھی کے پاس جارہی ہے جس سے تو مانوس نہ تھی تو اس کے لیے لونڈی بن
[1] ۔[حسن صحیح الجامع الصغیر(2328)]