کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 332
إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ﴾ "اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیاہوتو مقررہ مہرکا آدھا مہر دے دو یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کردیں۔"[1] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورت کو خاوند کے طلاق دینے کے بعد اپنامال معاف کرنے کی اجازت دی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو ا پنے مال میں اسی طرح تصرف کی اجازت ہے جیسے مرد کو اپنے مال میں ہے۔[2] ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح فرمایاہے: ﴿وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ﴾ "اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر تم ان میں ہوشیاری اورحسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو۔"[3] اس آیت سے یہ بات عیاں ہے کہ اگر یتیم بچی ہوشیار اور بالغ ہوجائے تو اس کے لیے اپنے مال میں تصرف کرنا جائز ہے۔اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے خطبہ میں وعظ ونصیحت کیا تو عورتوں نے اپنے زیورات صدقہ میں دے دیئے۔تو یہ سب کچھ اس پر دلالت کرتاہے کہ عورت کا ا پنے مال میں تصرف جائز ہے اور اسے اس کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ "نیل الاوطار" میں ہے کہ جمہور اہل علم کا کہنا ہے: جب عورت بے وقوف نہ ہوتو اس کےلیے مطلقاً اپنے مال میں خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا جائز ہے اور اگر وہ بے وقوف ہوتو پھر جائز نہیں۔ "فتح الباری" میں ہے کہ: جمہور علمائے کرام کی اس بات پر کتاب وسنت میں بہت سے دلائل ہیں۔جمہور نے اس حدیث"عورت کے لیے اپنے مال میں خاوند کی عصمت میں ر ہتے ہوئے ہبہ جائز نہیں(اور اس معنی کی دیگر احادیث)"سے استدلال کرنے والوں کا رویوں کیا ہے کہ یہ حدیث صرف ادب وحسن معاشرت،خاوند کے بیوی پر حق اور مقام ومرتبہ،اس کی قوت رائے اور عقل پر محمول ہے کہ خاوند ان اشیاء میں عورت سے پختہ ہوتاہے۔سنن نسائی کی شرح
[1] ۔[البقرہ :237] [2] ۔مزید دیکھئے:[ شرح معانی الآثار (4/352)] [3] ۔[النساء۔6]