کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 303
جواز کے قائل حضرات نے مندرجہ ذیل دلائل پیش نظر رکھے ہیں۔
1۔ ﴿فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ﴾
"تم حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ(حیض سے)پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب مت جاؤ۔[1]
شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:
﴿مَحِيضِ﴾سے حیض والی جگہ اور مدت مراد ہے اور اس کی جگہ(صرف)شرمگاہ ہے لہذا جب تک وہ حالت حیض میں ہے جماع حرام ہو گا۔[2]
امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:
خون والی جگہ سے علیحدہ رہنے کی تخصیص اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے علاوہ(رانوں اور پشت وغیرہ سے استمتاع)جائز ہے۔[3]
2۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہودیوں کی کو ئی عورت حائضہ ہوتی تو وہ اس کے ساتھ نہ کھاتے پیتے اور نہ ہی اسے اپنے گھروں میں رکھتے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو یہ آیت نازل ہوئی"آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو۔۔۔آیت کے آخر تک " پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا:
"جماع وہم بستری کے علاوہ سب کچھ کرو۔
جب یہودیوں کو اس پتہ چلا تو کہنے لگے اس شخص کو ہمارے ہر کام میں مخالفت ہی کرنا ہوتی ہے۔[4]
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں کہ:
اس سے ظاہر ہے کہ حرمت تو صرف حیض والی جگہ میں ہے یعنی صرف جماع حرام ہے اس کے علاوہ باقی(اعضاء سے لطف اندوز ہونا)مباح ہے اور جن احادیث میں چادر باندھنے کا ذکر ہے وہ اس کے مخالف نہیں کیونکہ وہ گندگی سے بچنے کے لیے زیادہ بہتر طریقہ ہے۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ حیض کے ابتدائی اور آخری ایام میں
[1] ۔[البقرۃ :222]
[2] ۔[شرح الممتع 413/1]
[3] ۔[المغنی لا بن قدامۃ 415/1]
[4] ۔[مسلم 302۔کتاب الحیض باب جواز غسل الحائض راس زوجہا و ترجیلہ احمد 132/3۔دارمی 245/1۔ابو داود 258۔ترمذی 2977۔نسائی 187/1۔ابن ماجہ 244بیہقی 313/1۔ابن حبان 1352ابو عوانہ 311/1]