کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 290
فرض اور واجب ہے اور جب بھی وہ اس کے لیے راضی نہیں ہو گی وہ نافرمان ہوگی۔[1] خاوند کے لیے جائز نہیں کہ وہ بیوی کے ساتھ اس کی طاقت سے زیادہ ہم بستری کرے۔اگر وہ بیماری کی وجہ سے معذور ہو یا پھر کسی اور وجہ سے اس کی برادشت سے باہر ہوتو وہ ہم بستری سے انکار پر گناہگارنہیں ہو گی۔ حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ لونڈی اور آزادی عورت پر فرض ہے کہ جب اس کا مالک اور خاوند اسے ہم بستری کی دعوت دے تو وہ اس کی بات قبول کرے اور انہیں انکار نہیں کرنا چاہیے لیکن جب وہ حائضہ یا مریض ہواور ہم بستری اس کے لیے تکلیف دہ ہویا اس نے فرض روزہ رکھا ہو تو پھر انکار کر سکتی ہے اور اگر بغیر کسی عذر کےانکار کرے تو وہ ملعون ہے۔[2] ایسی بیوی جسے خاوند کی زیادہ ہم بستری نقصان یا تکلیف دیتی ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے خاوند سے مصالحت کرے اور اس کے ساتھ اپنی برداشت کے مطابق ہم بستری کی تعداد متعین کرلے اور اگر وہ اس سے زیادہ کرے کہ جس سے اسے تکلیف ہو تو پھر اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا معاملہ عدالت میں لے جائے اور قاضی کو بیان کرے اور قاضی کو حق ہے کہ وہ اس کے لیے تعداد متعین کرےجو خاوند اور بیوی دونوں پر لازم ہو۔ اب جبکہ آپ کے ملک میں شرعی عدالت نہیں تو بیوی کو چاہیے کہ وہ اس معاملہ میں اپنے خاوند کے ساتھ متفق ہو کر اسے حل کرے اور اسے واضح طور پر اپنے خاوند سے بات کرنی چاہیے اور اس کے سامنے وہ آیات اور احادیث بیان کرے۔جس میں حسن معاشرت کا ذکر ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ خاوند بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرے۔اور بیوی کو اپنے خاوند کے لیے یہ بھی بیان کرنا چاہیے کہ وہ اس سے انکار تو نہیں کرتی لیکن جو چیز اس کے لیے نقصان دہ ہے اور جس کی وہ محتمل نہیں وہ اس سے انکار کرتی ہے۔ ہم سوال کرنے والی بہن کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے خاوند کے معاملے میں صبرو تحمل سے کام لے اور اس معاملے کو حسب استطاعت برداشت کرے اور اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ اسے اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجرو ثواب بھی ملے گا۔ اور خاوند پر بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس کا خوف اپنے ذہن میں رکھے اور اس پر ایسا کام مسلط نہ کرے جو اس کی برداشت سے باہر ہواور اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرے۔اگر اس کی شہوت اتنی ہی زیادہ ہے کہ اسے ایک بیوی کافی نہیں پھر وہ اس کا حل کیوں نہیں تلاش
[1] ۔[الفتاوی الکبری145/3] [2] ۔[المحلی لابن حزم 40/10]