کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 289
کہ میں اس کی رغبت کو پوری کروں لیکن ہمارے ایک دوسرے کے بارے میں واجبات کیا ہیں؟اگر طرفین کی رضا مندی کے باوجود ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کے قریب رہنے کی طاقت نہ رکھے تو کیا خاوند کے لیے جائز ہے کہ وہ اس طریقے سے مجھ سے علیحدہ ہو؟اور کیا اسے یہ حق ہے کہ وہ میرے پاس صرف یہ تعلق قائم کرنے کے لیے ہی آئے باوجود اس کے ہم نے ابھی تک اکٹھے بات چیت بھی نہیں کی؟ ان حالات کے باوجود الحمد اللہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور بہت ہی خوش ہیں اور ہر ایک دوسرے کا احترام بھی کرتے ہیں لیکن ہم اپنی زندگی کی اس مشکل کا اسلامی حل چاہتے ہیں۔ جواب۔خاوند پر واجب ہے کہ وہ بیوی سے حسن معاشرت اختیار کرے اور حسن معاشرت میں جماع بھی شامل ہے جو کہ اس پر واجب ہے۔جمہور علمائے کرام نے ہم بستری کے لیے مدت مقرر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ چارماہ تک کے لیے جماع چھوڑا جا سکتا ہے اور صحیح تو یہی ہے کہ وہ کوئی مدت مقرر نہ کرے بلکہ بیوی کے لیے جتنا کافی ہو اس سے اتنی ہی ہم بستری کرے۔ امام جصاص رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ خاوند پر ضروری ہے کہ اپنی بیوی سے ہم بستری کرے۔[1] اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ خاوند اپنی بیوی کی کفایت کے حساب سے ہم بستری کرنا واجب ہے۔[2] جب خاوند بیوی کو ہم بستری کے لیے بلائے تو اس پر واجب ہے کہ اس کی بات تسلیم کرے اگر وہ انکار کرے گی تو نافرمان ہوگی۔کیونکہ حدیث میں ہے کہ۔ "جب شوہر اپنی بیوی کو بستر ی کے لیے)بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس(بیوی)پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔[3] شیخ اسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ جب خاوند بیوی کو ہم بستری کے لیے بلائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے کیونکہ یہ اس پر
[1] ۔[احکام القرآن للجصاص 374/1] [2] ۔[الاخیارات الفقہیۃ ص246] [3] ۔[بخاری 5193کتاب النکاح باب اذا باتت المراۃ مہا جرۃ فراش زوجہا مسلم 1436۔کتاب النکاح باب تحریم امتناعہا من فراش زوجہا]