کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 282
حسب حال اور حسب ضرورت اس کی مقدار میں کمی بیشی ہوگی۔اس کی کم از کم مقدار کی بھی کوئی حد نہیں کیونکہ یہ ثابت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ﴿ما رأيت النبي صلى اللّٰهُ عليه و سلم أولم على أحد نسائه ما أولم علي زينب بنت جحش رضي اللّٰهُ تعالي عنها أولم بشاة﴾ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی پر اس قدر ولیمہ نہیں کیا جو زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر کیا۔(اس میں)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری کے ساتھ ولیمہ کیا۔"[1] اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت ہے کہ انھوں نے فرمایا: ﴿أَوْلَمَ النَّبِىُّ صلى اللّٰهُ عليه وسلم عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ بِمُدَّيْنِ مِنْ شَعِيرٍ﴾ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کا ولیمہ دو مد(تقریباًسواسیر)جو کے ساتھ کیا۔"[2] اور اس بیوی سے مراد حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں جیسا کہ مسند احمد کی ایک صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے۔ اور اسی طرح اس کی زیادہ سے زیادہ کی بھی کوئی حد نہیں البتہ مسلمان پر غناو فقر اور مدعوین کی کثرت و قلت کے لحاظ سے اعتدال واجب ہے اور اسے کھانے میں اسراف(یعنی کھانے کا ضیاع وغیرہ)نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اسراف حرام ہے بلکہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ﴿يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ﴾ "اے اولاد آدم علیہ السلام!تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ اور پیو اور اسراف(یعنی حد سے تجاوز)مت کرو یقیناً اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"[3](سعودی فتوی کمیٹی)
[1] ۔[بخاری 5168کتاب النکاح باب الولیمہ ولوبشاۃ مسلم 1428کتاب النکاح باب زواج زینب بنت جحش و نزول الحجاب واثبات ولیمہ العرس ابو داؤد 3743۔کتاب الاطعمہ باب فی استحباب الولیمہ عندالنکاح ترمذی 3218۔تفسیر القرآن باب و من سوۃ الاحزاب ابن ماجہ 1908۔کتاب النکاح باب الولیمہ نسائی 3251] [2] ۔[بخاری 5172کتاب النکاح باب من اولمہ بافل من شاۃ] [3] ۔[الاعراف :31]