کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 268
یعنی یہ تینوں کام اگر حقیقی طور پر کیے جائیں تو حقیقت ہوں گے۔اور اگر یہ بطورمذاق کیے جائیں توبھی حقیقت ہی ہوں گے۔اور "ہزل "سے مراد یہ ہے کہ لفظ سے وہ یعنی مراد لیا جائے جس کے لیے لفظ بنایا نہیں گیا اور یہ اسی فعل پر منطبق ہوتا ہےجو آپ دونوں نے عقد نکاح میں کیا ہے کیونکہ آپ نے عقدنکاح کا اندراج تو کروایا لیکن شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ عام علماء کے ہاں مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق بھی واقع ہو جا ئے گی اور اسی طرح اس کا نکاح بھی صحیح ہے جیسا کہ مرفوع حدیث کے متن میں بھی اس کا ذکر ہے صحابہ کرام اور تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین عظام کا مؤقف بھی یہی ہے۔ اور جمہور علماء کا بھی یہی قول ہے۔[1] حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ مراسیل حسن میں ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ جس نے بطور کھیل نکاح کیا یا طلاق دی یا بطور کھیل غلام آزاد کیا تو یہ واقع ہوگیا۔ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: چار چیزیں ایسی ہیں کہ جب ان کے بارے میں بات کی جائے تو وہ جائز ہوتی ہیں طلاق آزاد کرنا نکاح اور نذرماننا۔ اور امیر المومنین کہتے ہیں۔تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کوئی مذاق اور کھیل نہیں طلاق غلام آزاد کرنا اور نکاح اور ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابیان ہے۔ تین چیزوں میں کھیل بھی حقیقت پر مبنی ہے طلاق غلام آزاد کرنا اور نکاح اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔ نکاح خواہ مذاق میں ہو یا حقیقت میں برابرہے(یعنی بہر صورت منعقدہوجاتا ہے)[2] اس بنا پر آپ کے لیے دوبارہ نکاح کرنا ضروری نہیں بلکہ آپ دونوں پہلے نکاح پر ہی خاوند اور بیوی ہیں(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)
[1] ۔[الفتاوی الفقہیا الکبری 63/6] [2] ۔[مزید دیکھئے :اعلام المؤقعین 100/3]