کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 247
مشکل کو آسان کردے گا اس لیے لڑکی کو بھی چاہیے کہ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے اجروثواب کی نیت کرے اور اللہ تعالیٰ سے التجا کرے کہ وہ اس کی مشکل دور کرے۔یقیناً اللہ اپنے بندوں کے بے حد قریب ہے۔ آپ کے ملک میں بسنے والے علمائے کرام اورعقل ودانش رکھنے والوں اور اسی طرح عام لوگوں پر بھی ضروری ہے کہ وہ اس برے رواج کو تبدیل کرکے سنت نبوی کی اتباع کریں کیونکہ یہی صحیح وقابل عمل ہے اور اس کی مخالفت جائز نہیں۔(شیخ محمد المنجد) مہر ییوی کا حق ہے:۔ سوال۔میں مہر کے متعلق اسلامی نظریہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اسلام مہر کی اجازت دیتا ہے یا کہ ایک غلطی شمار ہوگی اور جب یہ غلطی ہوتو پھر اس شخص کو کیاکرنا چاہیے جو پہلے مہر حاصل کرچکا ہے؟ جواب۔دین اسلام میں مہر بیوی کا خصوصی حق ہے جو صرف اور صرف بیوی حاصل کرے گی۔تاہم کچھ ممالک میں یہ معروف ہے کہ مہر میں بیوی کا کوئی حق نہیں،یہ اسلامی شریعت کے خلاف ہے عورت کو مہر کی ادائیگی کے بہت سے دلائل ہیں جن میں سے کچھ ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں: 1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ﴿وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً﴾ "عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی ادا کرو۔"[1] حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ"نحلہ" سے مراد مہر ہے۔حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں نقل فرماتے ہیں کہ مرد پر لازم ہے کہ وہ واجبی طور پر عورت کو مہر ادا کرے اور یہ اسے راضی خوشی دینا چاہیے۔اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر کچھ اس طرح فرمایا ہے: ﴿وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا(20)وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَىٰ بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غليظا﴾ "اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو اور ان میں سے کسی کو تم نے خزانہ بھی دے رکھا
[1] ۔[النساء۔4]