کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 231
دیکھی جائے گی نہ کہ ماضی کے حالات۔ہم یہ دیکھیں گےکہ آیا وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی کررہاہے کہ نہیں مثلاً پانچوں نمازوں کی پابندی وغیرہ اس طرح وہ حرام کاموں سے بچتا ہے کہ نہیں اور اس نے اپنے ماضی میں جن حرام اُمور کا ارتکاب کیا تھا ان سے توبہ کی ہے کہ نہیں؟ اگر تووہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کررہا ہے اور اس سے شادی کرنے میں بھی یہ چیز مطلوب ہے تو پھر اس سے شادی کرلینی چاہیے۔بالخصوص جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی قابل اعتناء ہے کہ: "جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کردو اگر تم ایسا نہ کرو گے توزمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوگا۔"[1] اورایسے سچی توبہ کرنے والے شخص کے ماضی کو کریدنا بھی درست نہیں بلکہ اس پر پردہ ڈال دینا چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: "جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کی دنیا میں پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ اس کی آخرت میں پردہ پوشی فرمائے گا۔"[2] لیکن اگر وہ اپنے سابقہ گناہوں پر ابھی بھی قائم ہو اور اس نے خالص توبہ نہ کی ہوتو ایسے شخص سے مطلقاً آ پ شادی کرنے پر رضا مند نہ ہوں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: "زانی مرد زانی یا مشرک عورت کے علاوہ کسی اور سے نکاح نہیں کرتا اور زانی عورت بھی زانی یا مشرک مرد کے علاوہ کسی اور سے نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے۔"[3] امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "اور مومنوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے "سے مراد ہے زنا کار عورتوں کا پاکدامن مردوں سے شادی کرنا حرام کردیا گیا ہے۔ اسی بنا پر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے زانی عورت جب تک اپنی فحاشی پر قائم ہے عفت وعصمت کے مالک شخص کا اس سے نکاح صحیح نہیں اسے توبہ کا کہاجائے گا اگر وہ توبہ کرلے تو پھر اس سے نکاح صحیح ہوگا لیکن اگر وہ توبہ نہیں کرتی تو پھر اس سے نکاح جائز نہیں۔اسی طرح پاکدامن عورت کی کسی فاسق وفاجر سے شادی جائز نہیں حتیٰ کہ وہ اس سے
[1] ۔[حسن ارواءالغلل(1868) صحیح الجامع الصغیر(270) ترمذی(1084) ] [2] ۔[صحیح صحیح الجامع الصغیر(6287)] [3] ۔[النور۔3]