کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 228
اہم کامیابی حاصل کرنے کی توفیق حاصل کرچکا ہے جو اس کی زندگی کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے کہ کفر وشرک کے اندھیروں سے نکل کر نور اسلام اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی طرف آگیا ہے اور اب جوبری قسم کی عادات باقی رہ گئی ہیں اس کے لیے ان کا چھوڑنا توان شاء اللہ بہت ہی آسان ہوگا جبکہ وہ اس میں اللہ تعالیٰ سے مدد وتعاون کا طلب گار ہو۔کیونکہ جس نے اپنا دین چھوڑ دیا جس پر اس کی پرورش ہوئی اور اسی میں جوان ہوا اور پھر دین صحیح میں داخل ہوا اس کے لیے ان عادات کو جو اس نے جاہلیت کے دور میں اپنا رکھی تھی چھوڑنا بھی آسان ہو گا اس لیے کہ مشت زنی اس کے فاعل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس گندی عادت کو چھوڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت پر عمل کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے نوجوانوں کی جماعت!تم میں سے جسے نکاح کرنے کی استطاعت ہو اسے نکاح کرنا چاہیے کیونکہ نکاح نظر کو جھکانے والا اور شرمگاہ کومحفوظ رکھنے والا ہے اور جسے استطاعت نہ ہو اس کے لیے روزے کااہتمام وہ التزام ضروری ہے اس لیے کہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے۔"[1] رہا اس کا یہ سوال کہ منگیتر کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا تو اگر منگیتر سے مرد اور عورت ہے جس سے شرعی عقد نکاح ہوچکاہے اور صرف رخصتی باقی ہے تو اس عورت سے اس کے جنسی تعلقات صحیح اور حلال ہیں۔لیکن اگر منگیتر سے مراد یہ ہے کہ ابھی صرف منگنی ہی ہوئی ہے اور عقد نکاح نہیں ہوا تو اس سے جنسی تعلقات حرام ہیں۔ایسا کرنا بدکاری اور قبیح قسم کے افعال میں سے ہے جس سے وہ دونوں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب کامستحق بنارہے ہیں۔ اور یہ کہناکہ مالی مجبوریوں کی وجہ سے وہ شادی نہیں کرسکا بغیر عقدنکاح کے منگیتر سے ایسے برے تعلقات قائم کرنے کے جواز میں کافی نہیں۔اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ منگیتر ابھی تک اس کے لیے اجنبی ہے وہ بھی دوسری اجنبی عورتوں کی طرح ہی ہے اس لیے اس سے خلوت کرنا جائز نہیں کیونکہ اس کا نکاح نہیں ہوا۔ نیز اس کے لیےیہ بھی جائز نہیں کہ وہ منگیتر کے ساتھ سے مشت زنی کرائے یا اس کابوسہ لے وغیرہ۔اسی طرح اس سے بلا ضرورت بات چیت کرنا بھی جائز نہیں ہاں اگر کوئی ضرورت ہوتو محرم کی موجودگی میں پردے کی
[1] ۔[بخاری (5065) کتاب النکاح باب قول النبی:من استطاع الباءۃ فلیتزوج مسلم(1400) کتاب النکاح باب استحباب النکاح لم تاقت نفسہ الیہ ابو داود(3046)]