کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 215
آدھا دے دیجئے۔راوی نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمھارے اس تہبند کا کیا کرے گی۔اگر تم اسے پہنو گے تو اس کے لیے اس میں سے کچھ نہیں بچے گا اور اگر وہ پہن لے گی۔تو تمھارے لیے کچھ نہیں رہے گا اس کے بعد وہ صحابی بیٹھ گئے۔ کافی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب وہ کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ وہ واپس جارہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلوایا جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمھیں قرآن مجید کتنا یاد ہے؟ انھوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں انھوں نے گن کر بتائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم انہیں بغیر دیکھے پڑھ سکتے ہو؟انھوں نے عرض کیا کہ جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا پھر جاؤ میں نے ان سورتوں کے بدلےجو تمھیں یادہیں انہیں تمھارے نکاح میں دیا۔"[1] منگیتر کو دیکھنے کی حد کے متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں جب مرد کسی عورت سے شادی کرنا چاہے تو اس کے لیے عورت کو بغیر اوڑھنی کے دیکھنا جائز نہیں ہاں اس سر ڈھانپا ہوا ہو تو اس کا چہرہ اور اس کے ہاتھ اس کی اجازت کے ساتھ اور اس کی اجازت کے بغیر بھی(مراد ہے چھپ کر)دیکھ سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ "اور(مومن عورتیں)اپنی زیب و زینت کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے۔" امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "جو ظاہر ہے" سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں۔[2] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں جب کسی لڑکی سے نکاح کی رغبت ہو تو اسے دیکھنا مستحب ہے تاکہ بعد میں ندامت نہ اٹھانی پڑھے اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ دیکھنا مستحب نہیں بلکہ صرف جائز ہے اور احادیث کی روشنی میں پہلی بات ہی صحیح ہے دیکھنے میں تکرار اس کی اجازت کے ساتھ اور بغیر اجازت کے دونوں طرح ہی جائز ہے۔اگر دیکھنا ممکن نہ ہو سکے۔تو کسی عورت کو اسے دیکھنے کے لیے بھیجے جو اسے اچھی طرح دیکھ کر اس کی صفات مرد کے سامنےرکھے اور عورت بھی جب شادی کرنا چاہے تو مرد کو دیکھ سکتی ہے اس لیے کہ جس طرح مرد کی پسند ہے اسی طرح عورت کی بھی پسند ہے مرد عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں دونوں اطراف سے دیکھ سکتا ہے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں دیکھ سکتا۔[3]
[1] ۔ ۔بخاری 5130۔5087۔ کتاب النکاح باب تزویج المعسر مسلم 1425۔احمد 330/5۔ابو داؤد 2111ترمذی 1114۔ نسائی 113/6۔ابن ماجہ 1889۔عبدالرزاق 7592۔حمیدی 928۔ابن الجارود716۔ابن حبان 4093۔طحاوی 16/3بیہقی 144/7] [2] ۔[الحاوی الکبیر34/9] [3] ۔[روضہ الطالبین وعمدۃ المفتین 1907۔20]