کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 212
کرلینی چاہیے مجھے کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کیا کروں؟مجھے اس معاملے میں بہت پریشانی ہے مجھے یہ علم نہیں کہ قلبی شعور کیا چاہتا ہے۔ایک مرتبہ میری اس سے ملاقات ہوئی ہے اور اب دوسری ملاقات اس جمعہ کو ہوگی۔میں اس معاملے کو ضرورت سے زیادہ لمبا نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی دوسروں کے جذبات سے کھیلنا چاہتی ہوں آپ سے میری گزارش ہے کہ میرے سوال کا جواب جلد دیں کیونکہ مجھے نصیحت کی ضرورت ہے اور خاص کر استخارہ کے بارے میں جس نے مجھے پریشان کر دیا ہے۔ جواب۔اصل تو یہی ہے کہ جب عورت کے لیے کوئی ایسا رشتہ آئے جس کا دین اور اخلاق عورت کو پسند ہواور اس سے دینی اور اخلاقی طور پر کوئی اور شخص اس کے سامنے نہ ہو تو اسے قبول کر لے۔اگر آپ سے شادی کی پیشکش کرنے والا شخص ان صفات کا مالک ہے جو آپ نے ذکر کی ہیں اور پھر وہ علم شرعی حاصل کرنے کی حرص بھی رکھتا ہے جیسا کہ آپ کہتی ہیں تو پھر یہ خیرو بھلائی کی علامت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ استخارہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ استخارہ کے بعد انسان کو کسی قسم کا معین اشارہ ہو تا ہے بلکہ جب اس کے لیے مشورہ اور خوب سوچ بچار کے بعد کسی معاملے میں دین و دنیا کی بھلائی اور مصلحت واضح ہو تو اسے استخارہ کے بعد کام کر لینا چاہیے نہ تو استخارے کے بعد وہ کسی اشارے کا انتظار کرے اور نہ ہی نیند اور نفسیاتی شعور کا بلکہ استخارے کے بعد اللہ تعالیٰ پرتوکل رکھتے ہوئے وہ کام کر لینا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس شخص کے سامنے بے پردہ آنے اور اس کے ساتھ تنہائی کرنے سے بچیں کیونکہ وہ شخص ابھی تک آپ کے لیے اجنبی ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ آپ جو یہ تمنا کر رہی ہیں کہ آپ کا خاوند ایسا ہو نا چاہیے جس کے ساتھ زندگی اللہ تعالیٰ کے لیے بسر کی جائے بہت اچھی خواہش ہے ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے اور آسانی پیدا فرمائے۔ لیکن آپ کے علم میں یہ ضرورہونا چاہیے کہ ایک صالحہ عورت ہی اس معاملے میں مرد کی معاون ہو سکتی ہے اور اسے نصیحت کر سکتی ہے اور اسے مزید دینی تعلیمات پر ابھار سکتی ہے اور خاوند کے اعمال صالحہ میں مشغول رہنے کی وجہ سے جو کچھ عورت کےحق میں کمی و کوتاہی ہو اس پر صبر بھی ایک صالحہ عورت کا ہی کام ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کو خیرو بھلائی کی توفیق دے۔(آمین) ………(شیخ محمد المنجد)………