کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 210
اپنے گناہ چھوڑے ہیں یا نہیں تو اس طرح کے شخص پر اس کے دین اور اخلاق میں بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور ایسے شخص کے ساتھ شادی کرنے کی موافقت نہیں کرنی چاہیے۔ کسی انسان کا اپنی منگیتر یا اس کے اولیاء کو یہ کہنا کہ وہ اپنے ماضی سے توبہ کر چکا ہے اور اب اس میں تبدیلی پیدا ہو چکی ہے اس پر بھروسے کے لیے کافی نہیں بلکہ اس قول و فعل کی تحقیق کی جائے گی کہ آیا واقعتاً وہ اپنے قول میں سچا ہے۔جب اس کے بارے میں پختہ علم ہو جائے کہ وہ اپنے ماضی سے توبہ کر چکا ہے پھر یہ یقین ہو جائے کہ برائی ترک کر چکا ہے تو پھر اس سے شادی کی جائے۔اس لیے آپ کوئی نیک اور صالح شخص تلاش کریں خواہ اس کا ماضی کیسا ہی ہو۔آپ اسے ردنہ کریں اور ہر اس شخص کو جس کے بارے میں یہ علم ہو جائے کہ اس کا ماضی شروفساد میں گزراہے اور ابھی تک اس نے ایسے کاموں کو ترک نہیں کیا قبول نہ کریں اور اس سے شادی کرنے سے انکار کردیں۔ اس لیے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ دین دار عورت کو ترجیح دے اسی طرح عورت کے اولیاء کو بھی یہ حکم دیا ہے کہ: "جب تمھارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کردو۔اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوگا۔"[1] فساد سے مراد یہی ہے کہ اگر تم اپنی بچی کے لیے صرف مالدار حسب نسب والا اور خوبصورت لڑکا ہی تلاش کرو گے تو پھر تمھاری اکثر عورتیں بغیر شادی کے ہی بیٹھی رہیں گی۔اور اکثر مرد بغیر عورتوں کے رہیں گے جس سے زنا کا فتنہ زیادہ پھیلے گا۔ مزید برآں آپ یہ بھی دیکھیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے اکثر تو دورجاہلیت میں مشرک تھے اور پھر بعد میں مسلمان ہوئے اور اپنے اسلام پر اچھی طرح کار بند رہے اور شادیاں بھی کیں لیکن انہیں اس دلیل کی وجہ سے رد نہیں کیا گیا کہ ان کا ماضی اچھا نہیں تھا لہٰذا مرد کی حالت وہ معتبر ہو گی جس پر وہ موجودہ وقت میں کار بند ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کو صالح اور نیک خاوند عطا فرمائے اور اس میں آپ کے لیے آسانی پیدا کرے۔(آمین یا رب العالمین)(شیخ محمد المنجد)
[1] ۔[حسن ارواء الغلل 1868۔ترمذی 1084۔کتاب النکاح باب ماجاء اذا جاء کم من ترضون دینہ فزوجوہ ابن ماجہ 1967کتاب النکاح : باب الاکفاء]