کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 209
مشکل ہے کہ جتنے بھی رشتے آرہے ہیں ان میں سے کسی کے ساتھ بھی شادی کرنے کی موافقت کروں کیونکہ ان سب لڑکوں کا ماضی بہت غلط قسم کا رہا ہے۔لڑکیوں سے تعلقات تھے یا پھر وہ ڈانس کلبوں میں جاتے رہتے تھے ان میں سے اکثر نوجوانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اپنے ماضی کو چھوڑ چکے ہیں اور ان میں تبدیلی پیدا ہو چکی ہے لیکن میرے خیال میں اس قسم کے معاملات کا مستقبل پر اثر ضرور ہوتا ہے۔ جواب۔دین اسلام تو مکمل طور پر اعتدال کا دین ہے اور اسلامی تعلیمات پر عمل اور حرام کاموں سے اجتناب ایک ایسا امر ہے جس میں کسی بھی مسلمان کوکوئی اختیار نہیں کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے مسلمان پر واجب کیا ہے۔موجودہ دور میں فتنے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں اور بات یہاں تک جاپہنچی ہے کہ جو شخص کچھ حرام کردہ اشیاء کو ترک کرتا اور بعض واجبات پر عمل کرتا ہواسے سنجیدہ اور متشدد شمار کیا جا تا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا صرف اور صرف لوگوں میں دینی انحراف اور کثرت سے گناہ میں پڑنے اور شرعی واجبات ترک کرنے کی وجہ سے ہواہے۔ ہم تو آپ کے بہت زیادہ شکر گزار ہیں اور یہ لائق صد تحسین ہے کہ آپ اس گندے(یورپی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں آپ کے علم میں ہو نا چاہیے کہ آپ جو کچھ کر رہی ہیں وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے اولیاء مومن لوگوں کو بہت زیادہ پسند ہے لیکن یہ کام شیطان کو بہت ہی برااور غصہ دلانے والا ہے اور اسی طرح شیطانی انسان بھی اس سے نفرت کرتے ہیں۔آپ کا صالح خاوند اختیار کرنا بھی ایک شرعاً مطلوب کام ہے لیکن ایسا کرنا آپ کے لائق نہیں کہ جس کے دین اور اچھے اخلاق کا علم ہو جائے مگر اس کا ماضی خراب ہونے کی وجہ سے اسے رد کردینا اور اس سے شادی نہ کرنا۔کیونکہ جس انسان نے اپنے ماضی سے توبہ کر لی ہو اسے اس کے ماضی کی عار نہیں دلائی جا سکتی اور نہ ہی اس پر ماضی کی وجہ سے کوئی عیب لگایا جا سکتا ہے اور پھر اگر وہ شادی کی رغبت کے ساتھ آپ کو شادی کا پیغام دیتا ہے تو اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو فرمان ہے۔ ﴿التائب من الذنب كمن لا ذنب له﴾ "گناہوں سے توبہ کرنے والا تو ایسے ہے جیسے اس کا کوئی گناہ ہی نہ ہو۔"[1] لیکن اگر کسی کے بارے میں یہ علم ہو کہ اس کا ماضی بہت ہی برا گزرا ہے اور وہ معاصی کا مرتکب رہا ہے اور اب اس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ وہ اپنے ماضی میں کیے ہوئے گناہوں سے توبہ کر چکا ہے یا نہیں اور اس نے
[1] ۔[حسن : صحیح ابن ماجہ ابن ماجہ 4250۔کتاب الذھد : باب ذکر التوبہ صحیح الجامع الصغیر 3008۔صحیح الترغیب 3145۔کتاب التوبہ والزھد: باب الترغیب فی التوبہ والمباد رۃ بہا]