کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 180
کرچکے ہو۔ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر گناہ نہیں تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں تمہارا دو بہنوں کی جمع کرلینا ہاں جو گزر چکا سو گزرچکا۔"[1] اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے سے منع فرمایا کہ آدمی اپنی بیوی اور اس کی خالہ یا پھر پھوپھی کو ایک ہی نکاح میں جمع کرے۔[2] اور جب طلاق فسخ نکاح یا وفات کی وجہ سے مرد بیوی سے علیحدہ ہوجائے تو عدت پوری ہونے کے بعد وہ اس کی سالی یا خالہ یا پھوپھی سے بھی شادی کرسکتا ہے(اس لیے ان عورتوں کے ساتھ خلوت ومصافحہ جائز نہیں)(سعودی فتویٰ کمیٹی) رشتہ دار قیدی کے گھر والوں کی خبر گیری اور اس کی بیوی کے ساتھ خلوت:۔ سوال۔میرا ایک قریبی جیل میں ہے اور میں اس کی گھر یلو ضروریات کا خیال رکھتا ہوں جس میں بچوں کی تعلیم اور گھر کے لیے ضروری اشیاء کی خریداری اور اس کےگھر والوں کو وعظ ونصیحت کرنے کے لیے کسی محرم کے بغیر ان کے ساتھ بیٹھتا ہوں لیکن اس میں ہرقسم کا احترام،قدر اور اخوت فی اللہ کا دھیان رکھتا ہوں۔ اس کی بیوی مجھ سے چہرےاور ہاتھ کا پردہ نہیں کرتی میں یہ سب کچھ اس لیے کرتا ہوں کہ عورت کے خاندان سے اس کے محرم رشتہ دار اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے حالات کی خبر لیتے ہیں میں اس سلسلے میں شرعی اعتبار سے جاننا چاہتا ہوں کہ کیا میں جو کچھ کررہا ہوں وہ حلال ہے یا حرام؟آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ میں یہ سب کچھ فی سبیل اللہ اور اپنے قریبی سے تعلقات کی بنا پر کررہا ہوں۔ جواب۔آپ جو کچھ اپنے قریبی کی فیملی کے ساتھ اس کی غیر حاضری میں کررہے ہیں وہ ایک نہایت مستحسن عمل اور نیکی کا کام ہے۔جس پر آپ تحسین وآفرین کے سزاوار ہیں اس لیے کہ کمزور وناتواں لوگوں کی ضروریات پوری کرنا اعمال صالحہ میں شامل ہوتا ہے۔ لیکن آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ اس کی بیوی کے ساتھ تنہائی اختیار کریں کیونکہ وہ آپ کے لیے
[1] ۔[النساء۔23] [2] ۔[بخاری(5108) کتاب النکاح:باب لا تنکح المراۃ علی عمتھا مسلم(1408) كتاب النكاح : باب تحريم الجمع بين المرأة و عمتها أو خالتها فى النكاح، ابو داؤد (2066) كتاب النكاح: باب ما يكره أن يجمع بينهن من النساء، ابن ماجه،(1929) كتا ب النكاح : باب لا تنكح المرأة على عمتها ولا على خالتها، نسائى (3289) وفى السنن الكبرى (4519) ابن حبان(4113) شرح السنة للبغوى(2277) بيهقى 7/165) مؤطا ( 1129) كتاب النكاح: باب ما لا يجمع بينه من النساء]