کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 173
"اور ان کے علاوہ تمہارے لیے حلال ہیں۔"[1] یہی نہیں بلکہ اکثر علماء کے نزدیک تو واضح طور پر سسر کی بیوی اور عورت دونوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا جائز ہے(یعنی بیوی کی والدہ کے علاوہ اس کے والد کی دوسری بیوی کو جسے وہ طلاق دے چکا ہو)۔ امام ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: مرد کی بیوی اور اس کی دوسری بیوی کی بیٹی دونوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا اکثر علماء کے نزدیک جائز ہے۔البتہ بعض سلف نے سے ناپسند کیا ہے۔[2] امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: جب کوئی شخص کسی عورت اور اس کے والد کے بیوی سے شادی کرے تو یہ عمل امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جائز ہے۔ہمیں عبداللہ بن جعفر رحمۃ اللہ علیہ سے اسی طرح کی روایت پہنچی ہے کہ انہوں ن ایسا ہی کیا تھا۔مزید فرماتے ہیں: کسی شخص کی بیوی اور اس کی کسی اور بیوی سے بیٹی دونوں کو جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔[3] امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ عورت اور اس کے والد کی(دوسری)بیوی اور اسی طرح اس کے بیٹے کی بیوی اور اس کی چچازاد کو جمع کرے کیونکہ اس کی تحریم میں کوئی نص نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،اور ابو سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔[4] امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں کہ کسی شخص کی بیوی اور اس کی کسی اور بیوی سے بیٹی کو نکاح میں جمع کرلیا جائے۔اکثر اہل علم کے نزدیک بیوی اور اس(یعنی بیوی)کی ربیبہ کو نکاح میں جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔عبداللہ بن جعفر اور صفوان بن امیہ نے ایسا کیا اور حسن رحمۃ اللہ علیہ،عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ،اوراب ابی لیلیٰ رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ سب فقہائے کرام کا یہی کہنا ہے صرف ان سے کراہت منقول ہے وہ(یعنی مکروہ کہنے والے)یہ کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے اگر ایک مذکور ہوتا تو اس پردوسری حرام ہوجاتی،اس طرح یہ عورت اور اس کی پھوپھی کے مشابہ ہوئی۔لیکن
[1] ۔[النساء۔24] [2] ۔[جامع العلوم والحکم (ص/411)] [3] ۔[مزید دیکھئے( الامام الشافعی(7/155)] [4] ۔[المحلی(9۔523)]