کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 171
اور بعض حنابلہ کا کہنا ہے: ممکن ہے یہودی یا عیسائی رشتہ دار اسے فروخت کردے یا پھر اسے قتل کردے۔لیکن جب ہم اس علت کو پیش نظر رکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ علت تو بعض فاسق قسم کے مسلمانوں پربھی منطبق ہوتی ہے۔لہذا اس کا کافر ہونا محرم ہونے میں رکاوٹ نہیں البتہ امانت دار ہونا بہرحال ضروری ہے۔ اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ آیا کافروہ عورت کسی مسلمان عورت کو دیکھ سکتی ہے یا نہیں؟تو زیادہ راجح بات یہ ہے کہ ایسی عورت سے پردہ نہ کرنا درست ہے جس سے یہ خدشہ نہ ہوکہ وہ اس کی صفات کسی اور کو بتائے گی چاہے وہ مسلمان ہو یاکافرہ۔ شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ سے یہ سوال کیا گیا: کیا مسلمان عورت کے لیے کسی کافر عورت کے سامنے اپنے بال ننگے کرناجائز ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ عورت اپنے عزیز واقارب مردوں کے سامنے اس کی صفات بیان کریں گی اور وہ سب غیر مسلم ہیں؟ تو شیخ نے جواب دیا: یہ معاملہ مندرجہ ذیل آیت کی تفسیر میں علمائے کرام کے اختلاف پر مبنی ہے: "اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھاکریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کوظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیب وزینت کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا ا پنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے۔اے مسلمانو!تم سب اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کروتاکہ تم نجات اور کامیابی حاصل کرو۔"[1] اللہ تعالیٰ کے فرمانا:و نسائهن کی ضمیر میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ اس سے عمومی جنس عورت مراد ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ ا سے صرف مومن عورتیں ہی مراد ہیں۔پہلے قول کی بنا پر عورت کے لیے غیر مسلم کے سامنے اپنے بال ننگے رکھنا جائز ہے اور دوسرے قول کی بنا پر جائز نہیں۔
[1] ۔[النور۔31]