کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 154
ساتھ اس شرط پر شادی کر رہے ہیں کہ تم اس سے ہم بستری کر کے اسے طلاق دے دو گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ(نکاح سے پہلے)ایسی کوئی شرط تو نہ لگائی جائے البتہ حلالے کی صرف نیت موجود ہواور نیت بعض اوقات شوہر کی طرف سے ہوتی اور بعض اوقات شوہر اور اس کے اولیاء کی طرف سے۔پس جب نیت شوہر کی طرف سے ہوگی اور بے شک شوہر کے ہاتھ میں ہی جدائی(یعنی طلاق دینے)کا اختیار ہے تو ایسے نکاح سے عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو گی۔کیونکہ اس نے وہ نیت ہی نہیں کی جو نکاح سے مقصود ہے اور وہ ہے بیوی کے ساتھ الفت و محبت اور طلب عفت و اولاد وغیرہ سمیت زندگی گزارنا۔اس نکاح میں اس کی نیت نکاح کے بنیادی مقصد کے ہی خلاف ہے لہٰذایہ نکاح صحیح نہیں ہو گا۔ اور اگر(شوہر کے بر خلاف)بیوی یا اس کے اولیاء کی(حلالے کی)نیت ہو تو(پھر نکاح کا کیا حکم ہے)یہ مسئلہ اختلاف ہےاور ابھی تک مجھے دونوں اقوال میں سے زیادہ صحیح کا علم نہیں ہو سکا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ نکاح حلالہ حرام نکاح ہے اور یہ(عورت کو)پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کا فائدہ نہیں دیتا کیونکہ یہ صحیح نہیں ہے۔(شیخ ابن عثیمین) پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کے لیے دوسرے شوہر کی ہم بستری ضروری ہے سوال۔ایسے آدمی کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس بیوی نے پھر کسی اور مرد سے شادی کر لی اور رخصتی بھی ہو گئی پھر اس(دوسرے شوہر)نے اسے اس کے بقول بغیر ہم بستری کے ہی طلاق دے دی تو کیا وہ اب پہلے شوہر کے لیے حلال ہے یا نہیں؟ جواب۔تیسری طلاق کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوتی جب تک وہ کسی اور مرد کے ساتھ حلالے کی نیت سے نہیں بلکہ صرف بسنے کی نیت سے نکاح نہ کر لے اور پھر وہ اس کے ساتھ ہم بستری نہ کرلے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: ﴿فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ "اگر اس کو(تیسری بار)طلاق دے دے تو اب(وہ عورت)اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک وہ اس کے سواکسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے۔"[1]
[1] ۔[البقرۃ 23]