کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 118
سے جن سے تم دخول کرچکےہو۔ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہوتو تم پر گناہ نہیں تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں،تمہارا دو بہنوں کو جمع کرلینا،ہاں جو گزر چکا سو گزرچکا۔اور شوہر والی عورتیں الا کہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں۔اللہ تعالیٰ نے یہ احکام تم پر فرض کردیے ہیں اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تم پر حلال کی گئی ہیں کہ انے مال کے مہرسے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لیے نہ کہ شہوت رانی کے لیے۔"[1] لہذا ثابت ہوا کہ ر بیبہ آپ پر حرام نہیں کیونکہ وہ آپ کے والد کی بیوی کی وہ بیٹی ہے جو اس کے پہلے خاوند سے ہے اور آپ سے اس کاکوئی تعلق نہیں اس لیے آپ اس سے بغیر کسی حرج کے شادی کرسکتے ہیں۔ سعودی مستقل فتویٰ کمیٹی سے جب والد کی بیوی کی بیٹی سے شادی کے متعلق سوال کیاگیا تو کمیٹی نے جواب دیا: مذکورہ بچے کے لیے اس لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے خواہ اس کے والد نے اس لڑکی کی والدہ سے شادی ہی کی ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: "اور اس کے علاوہ باقی عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔" اور مذکورہ(ربیبہ)لڑکی ان عورتوں میں شامل نہیں جو اس سے پہلے آیت میں بالنص(حرام)ذکر کی گئی ہیں۔اور نہ ہی اس کی حرمت کا سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی ذکر ملتاہے۔[2](شیخ محمد المنجد) بھتیجی سے نکاح کا حکم:۔ سوال۔کیا اپنے بھائی کی بیٹی(یعنی بھتیجی)سے شادی کرنا جائز ہے؟ جواب۔کسی بھی بھائی کے لیے جائز نہیں کہ وہ ا پنے بھائی کی بیٹی سے شادی کرے کیونکہ وہ ان حرام رشتوں میں سے ہے جن کی حرمت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نص بیان کی ہے فرمایا: ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ ..... وَبَنَاتُ الأَخِ وَبَنَاتُ الأُخْتِ﴾ "حرام کر دی گئی ہیں تم تمہاری مائیں،تمہاری بیٹیاں،تمہارے بھائی کی بیٹیاں(بھتیجیاں)اور
[1] ۔[البقرہ۔22۔24۔] [2] ۔[مزید دیکھئے۔الفتاویٰ الجامعہ للمراۃ المسلمۃ(2/600)]