کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 105
قبول اسلام کی رغبت رکھنے والی ہندو لڑکی سے شادی کا حکم سوال۔میں ایک چوبیس سالہ امریکی مسلمان ہوں تقریباً چھ برس سے ایک ہندو لڑکی کو جانتاہوں۔ہم شادی کرنا چاہتے ہیں وہ چاہتی ہے کہ ابھی مزید اسلامی تعلیمات حاصل کرے اور زیادہ سے زیادہ اسلام کی معرفت اور ایمان قوی ہوجانے کے بعد اسلام قبول کرے۔اس کی فیملی شروع میں تو مترود تھی۔لیکن اب انہیں اس میں کوئی مانع نہیں کیونکہ وہ یہی چاہتے ہیں۔البتہ میرے خاندان والے اس موضوع میں خدشات کا شکار ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا نام اسلامی رکھے۔ اور پھر وہ والدین کی اکیلی بیٹی ہے،وہ اسلامی نکاح کرنے کے ساتھ ساتھ یہ چاہتی ہے کہ ہندو طریقہ پر نکاح ہونا چاہیے وہ اس پر راضی ہے کہ ہندو طریقہ پر نکاح کرنے میں جو دینی اشیاء ہیں وہ ہم نہیں کریں گے بلکہ ہم صرف رسم ورواج ہی کریں گے،میں تو اس پر رضا مند ہوں لیکن میرے والدین مطلقاً اس پر رضا مند نہیں۔وہ لڑکی اسلامی تعلیمات سیکھنے کی رغبت رکھتی ہے لیکن میرے والدین کی وجہ سے پریشان ہے کیونکہ وہ ایک اپنی ہی فکر رکھتے ہیں اور اس کی حالت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے،میری گزارش یہ ہے کہ آپ کو ئی مشورہ دیں اور نصیحت کریں۔ جواب۔اولاً آپ کو یہ علم ہونا چاہیے کہ کسی بھی مسلمان شخص کے لیے غیر مسلم عورت سے شادی کرنا جائز نہیں،صرف اتنا ہے کہ اگر عورت اہل کتاب میں سے ہو تو اس سے کچھ شروط کے ساتھ شادی کی جاسکتی ہے۔اور اگر وہ لڑکی اسلام قبول کرلے تو آ پ کے اس قبو ل اسلام کے بعد اس سے شادی کرسکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آ پ یہ کوشش کریں کہ شادی آپ کے والدین کی رضا مندی اور خوشی سے ہو اس لیے کہ آپ کی ازدواجی زندگی میں والدین کی رضا مندی اورخوشی کا بہت زیادہ اثر ہوگا اور پھر ان کی رضا مندی اور خوشی تو انسان کے لیے ایسی نیکی ہے جس پر اسے اجر وثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ نام تبدی کرنے کے بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے: نام تبدیل کرنا ضروری نہیں۔ہاں اگر اس میں کوئی شرعی ممانعت ہو اور شرعی طور پر وہ برقرار نہیں رکھاجاسکتا تو پھر بدلنا ضروری ہے۔مثلاً نام کسی غیر اللہ کی عبودیت پر ہو(جیسے عبد شمس وغیرہ)تو ایسے نام کو بدلنا ضروری ہے،اور اسی طرح اگر کوئی نام کفار کے ساتھ ہی خاص ہوکہ کفار کے علاوہ کوئی اور یہ نام نہ رکھتا ہو تو اس کابدلنا بھی واجب