کتاب: فتاوی نکاح و طلاق - صفحہ 102
نکاح جیسے مقدس کام میں۔ اس غیر صحیح شادی سے جو تعلقات قائم ہوئے ہیں ان سے توبہ کرنی واجب ہے اور ہوسکتا ہے یہ حادثہ آپ کے لیے شریعت اسلامیہ کی مزید تعلیم اور احکام شریعت جاننے کا باعث بنے۔ہم اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے اسلام پر ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں اور یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو مزید دین اسلام کی سمجھ عطا فرمائے اور آپ پر مزید اپنا فضل وکرم فرمائے اور کوئی صالح اور نیک سا مسلمان خاوند بھی آپ کو عطا فرمائے۔اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے۔(واللہ اعلم)(شیخ سعد الحمید) بیوی کی طرف سے یہ شرط کہ شوہر اسے ہی ملک میں رکھے گا:۔ سوال۔بیوی نے عقد نکاح میں یہ شرط رکھی کہ خاوند اسے اس کے ملک میں ہی رکھے گا۔اور اپنے ساتھ کسی دوسرے ملک نہیں لے جائے گا ایسی شرط کا کیا حکم ہے؟ جواب۔بیوی یا اس کے ولی کی طرف سے یہ شرط رکھنا صحیح ہے کہ خاوند اس کے گھر یا اسکے ملک سے اسے نہیں نکالے گا اور اس شرط پر عمل کرنا بھی لازم ہوگا جس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿إن أحق الشروط أن تُوفُوا بِهِ مَا استحللتم بِهِ الفرُوج﴾ "وہ شرط پورا کیے جانے کی زیادہ مستحق ہے جس کے ذریعے تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو اپنے لیے حلال کیا ہے۔"[1] اثرم رحمۃ اللہ علیہ سندکے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کسی عورت سے شادی کی جس نے یہ شرط رکھی کہ وہ اپنے ہی گھر میں رہے گی مگر پھر خاوند نے اسے وہاں سے منتقل کرنا چاہا تو وہ اپنا جھگڑا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لائے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا عورت کے لیے اس کی شرط باقی ہے۔
[1] [( بخاری(2721) کتاب الشروط:باب الشروط فی المھر عند عقدۃ النکاح مسلم(1418) کتاب النکاح باب الوفاء بالشروط فی النکاح احمد(4/144) ابو داود(2139) کتاب النکاح باب فی الرجل یشترط لھا دارھا،نسائی(6/92) ترمذی(1127) کتاب النکاح :باب ماجاء فی الشرط عند عقدۃ النکاح ابن ماجہ(1954) کتاب النکاح باب الشرط فی النکاح عبدالرزاق (10613) دارمی (2/143) ابو یعلی(1754) بیہقی(7/248)]