کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 95
قرار دیتے ہیں۔ اور اسی کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں، اس سلسلے میں وہ کسی امام کی تقلید[1]
[1] حافظ صاحب رحمہ اللہ مدرس مصنف ایک اچھے مفتی بھی تھے ان کا فتاویٰ راقم نے جمع کرنا شروع کیا تھا بہت زیادہ کام ہو گیا تھا مگر بعض وجوہات کی بناء پر یہ کام مکمل نہ ہو سکا، انا للہ، حافظ صاحب کے فتاویٰ بعض تفصیلی اور بعض تو صرف ہاں یا نہ تک محدود ہیں۔ 6۔ فتاویٰ حصاروی (19 ستمبر 1981ء) مولانا ایک حق گو انسان تھے پوری زندگی وعظ و تبلیغ میں گزار دی۔ مولانا مدرس، مصنف ہونے کے ساتھ ایک اچھے مفتی بھی تھے۔ بقول ڈاکٹر عبدالروؤف ظفر چئیرمین سیرت چئیر بہاول پور یونیورسٹی مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ نے ایک دفعہ ان کے فتاویٰ کو دیکھ کر کہا مولانا آپ فتویٰ لکھتے وقت علیہ وما علیہ۔۔ سب کو محیط کر لیتے ہیں اور دلائل کی بھرمار اور استدلال بھی کمال۔ ان کے فتاویٰ آج کل مولانا محمد یوسف (راجووال) طبر کروا رہے ہیں یہ تمام کام ہو گیا ہے، یہ خبر مولانا یوسف راجووال حفظہ اللہ نے ایک خط کے ذریعے دی۔ تقریباً 7 جلدیں میں ہو گا۔ 7۔ اسلامی فتاویٰ، مولانا عبدالسلام بن یاد علی (م 1974ء) مولانا کی علمی شہرت، اسلامی خطبات اور شرح مشکوٰۃ کی وجہ سے ہے۔ مولانا فتاویٰ کے میدان میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے۔ اس فتاویٰ میں منکرین حدیث کا تفصیلی جواب اور اہل حدیث کی تاریخ اور اس پر وارد اعتراضات کا تفصیلی جواب بھی موجود ہے۔ اور عقائد و مسائل کے حوالے سے اسلامی فتاویٰ کی بڑی اہمیت ہے۔ 8۔ فتاویٰ مولانا سلطان محمود صاحب رحمہ اللہ جلال پور پیروالا (4 نومبر 1995ء) مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ مولانا شیخ عبدالحق مہاجر مکی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے انہوں نے پوری زندگی سوائے ایک سال جامعہ سلفیہ کے جلال پور میں گزاری۔ اس علاقہ میں مولانا ہی کا فتویٰ جاری تھا بلکہ میراث کے سلسلہ میں ان کا فتویٰ عدالت میں حرف آخر ہوتا تھا۔ ان کا فتاویٰ اخبار اہل حدیث وغیرہ میں شائع کرتا رہتا تھا۔ آج کل جلال پور پیر والا میں ان کا فتاویٰ مرتب ہو رہا ہے۔ 9۔ مولانا محمد عبداللہ ویرووالوی رحمہ اللہ (م 1991ء) مولانا رحمہ اللہ کا تعلق امرتسر سے تھا۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد دلائل پور جناح کالونی میں مدرسہ دارالقرآن کی بنیاد رکھی جو آج کل ملک کا ایک نامو مدرسہ ہے۔ مولانا رحمہ اللہ امانت و دیانت میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ منتظم اور مفتی بھی تھے۔ ان کا فتاویٰ مولانا محمد سعید چنیوٹی رحمہ اللہ نے مولانا کی سوانح حیات میں شامل کر دیا ہے۔