کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 93
[1]، مولانا خلیل احمد سہارن پوری [2]، مولانا وکیل احمد سکنہ پوری [3](م 1322ھ) اور عراق کے شیخ خیر الدین نعمان بن محمود آلوسی [4](م 1317ھ) سب اس سلسلے میں یک زبان ہیں۔ ان لوگوں نے اس کے لئے جن ضعیف احادیث کا سہارا لیا ہے ان کی حقیقت علامہ عظیم آباد کا فتویٰ دیکھنے سے واضح ہوتی ہے۔
نماز عیدین کے بعد مصافحہ و معانقہ بھی ایک رسم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اکثر شہروں میں علمائے احناف اور عوام اس پر خصوصاً عمل کرتے ہیں، مولانا نے فقہ شافعی، مالکی اور حنبلی کے ساتھ فقہ حنفی کی بھی مستند کتابوں سے اس کا بدعت ہونا نقل کیا ہے۔
جانوروں کو خصی کرنے سے متعلق جتنی تفصیلی بحث مولانا عظیم آبادی نے کی ہے کہیں اور نظر نہیں آتی، اسی طرح تعزیہ داری، عقیقہ اور آمین بالجہر کے موضوع پر جو کچھ لکھا ہے اور ان سے متعلق احادیث کی جس طرح چھان بین کی ہے وہ ہمیں فتاویٰ کے دوسرے مجموعوں میں شاید ہی کہیں ملے، دوسرے فتویٰ نگاروں کے بالمقابل مولانا اختصار سے کام لینے کے بجائے تفصیل اور تحقیق کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اور یہی ان کی امتیازی خصوصیت ہے۔
ان فتاویٰ پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا عظیم آبادی فتویٰ نویسی کے وقت ہر مسئلہ میں پہلے کتاب و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں، پھر علماء و فقہاء اور ائمہ مجتہدین کے اقوال نقل کرتے ہیں اور ان کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں، پھر
[1] دیکھئے فتاویٰ عبدالحئی 2/381 مطبوعہ لکھنؤ
[2] فتاویٰ خلیلہ ص 320-321
[3] انہوں نے ایک مستقل رسالہ اس موضوع پر ’’تنقيح البيان بجواز تعليم كتابة النسوان‘‘ کے نام سے لکھا ہے۔ دیکھئے: نزهة الخواطر 8/518 اور ’’نذر مقبول‘‘ میں ان کے حالات اور خدمات پر ایک مضمون۔
[4] ان کا ایک رسالہ ’’الاصابة في منع النساء من الكتابة‘‘ کے نام سے 6 اوراق پر مشتمل ’’مكتبه الاوقاف العامة‘‘ بغداد میں زیر رقم 12/5962 مجامیع محفوظ ہے، جس میں اس موضوع سے متعلق ہندوستان سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ دیکھئے: فهرس مكتبه الاوقاف 1/383، ان کے حالات کے لئے دیکھئے: حیاۃ المحدث شمس الحق ص 251-253