کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 92
نودي، شرح السنة للبغوي، معالم السنن، مرقاة، نيل الأوطار وغیرہ، رجال کے سلسلے میں تقريب، تهذيب، خلاصه للمزي، ميزان الاعتدال وغیرہ مشکل الفاظ کے سلسلے میں النهاية، المصباح المنير، الصحاح، القاموس وغیرہ۔ تفسیر میں ابن کثیر بغوی، طبری۔ حدیث کے متون میں تقریباً اکثر مطبوع و غیر مطبوع کتابیں۔ فقہ (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کی تمام مشہور اور مستند کتابیں۔ اسی طرح اصول فقہ، اصول حدیث، عقیدہ، تاریخ سیرت کے اکثر مآخذ فتویٰ نویسی کے وقت ان کے پیش نظر ہوتے، جن کے حوالے اس مجموعہ کے ہر ہر صفحے میں ملتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ عظیم آبادی مآخذ و مصادر پر کتنی گہری نظر رکھتے تھے اور متفرق معلومات کس سلیقے اور خوبی کے ساتھ اکٹھا کرتے تھے۔ مولانا کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر موضوع پر بحث و تحقیق میں ایک ہی اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ کہیں سرسری جواب پر اکتفا نہیں کرتے۔ یوں تو ان کی تمام تحریریں ان کی محدثانہ صلاحیت اور فقہی مسائل میں مجتہدانہ بصیرت کی شاہد ہیں، پھر بھی ہم خاص طور پر ان کے چند فتاویٰ کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے عورتوں کو لکھنا سکھانا، (فتویٰ نمبر 43) جانوروں کو خصی کرنا (نمبر 44) عیدین کی نماز کے بعد مصافحہ و معانقہ (نمبر 10) دیہات میں جمعہ کی فرضیت (نمبر 41) لڑکی کا حالتِ صغر میں نکاح اور خیارِ بلوغ کی تحقیق (نمبر 10) تعزیہ داری (نمبر 40) عقیقہ (نمبر 45) میت کی پیشانی پر بسم اللہ لکھنا (نمبر47) طلاق ثلاثہ سے متعلق رکانہ والی حدیث پر بحث (نمبر 4) ایک نماز کے لئے مسجد میں دوسری جماعت قائم کرنا (نمبر 36) آمین بالجہر کا مسئلہ (نمبر 42) وغیرہ ان مسائل پر مولانا نے جو کچھ لکھا ہے وہ حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ علمائے احناف نے ان میں سے بعض مسائل میں جو موقف اختیار رکھتا ہے۔ مولانا علمی انداز میں اس جائزہ لیا ہے، اور خود فقہ حنفی کی مستند کتابوں سے اس کے خلاف نقول فراہم کئے ہیں۔ احناف بعض مسائل میں اتنے متشدد ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ان کے بڑے بڑے علماء نے لڑکیوں کو لکھنا سکھانے کی ممانعت کا فتویٰ دیا ہے۔ تعجب ہے کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی