کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 87
بڑی مدلل اور فکر انگیز ہوتی ہیں، فتاویٰ میں بعض عصری مسائل سے متعلق انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس سے ان کی دقت نظر کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے علاوہ بہت سے علماء ہیں جن کے فتاویٰ کتابی شکل میں شائع نہیں ہوئے۔ ضرورت ہے کہ انہیں مختلف پرچوں، کتابچوں اور مجموعوں سے اکٹھا کیا جائے، اور مناسب ترتیب و تبویب کے بعد طبع کرایا جائے خصوصاً مولانا عبداللہ رحمانی رحمہ اللہ کی مختلف تحریریں جو پوتے کی وراثت، بیمہ، بینک کے سود اور دوسرے بہت سے اہم موضوعات سے متعلق ہیں ان مسائل پر انہوں نے بڑی تحقیقی بحث کی ہے جس کے بعد کسی دوسرے شخص کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ سنا ہے کہ کوئی صاحب ان کے فتاویٰ ’’الفتاويٰ الرحمانيه‘‘ کے نام سے جمع کر رہے ہیں، خدا کرے جلد اس کی ترتیب و اشاعت عمل میں آئے۔ ادھر چند سال قبل مولانا ابو الحسنات علی محمد سعیدی (م 6 جولائی 1987ء) نے ’’فتاویٰ علمائے حدیث‘‘ کے نام سے تمام مشہور علمائے اہل حدیث کے فتاویٰ کے ازسرنو ترتیب و تبویب کا کام شروع کیا تھا جس کی 11 جلدیں اب تک چھپ چکی ہیں۔ افسوس کہ ان کی وفات کی وجہ سے یہ سلسلہ ناقص رہ گیا خدا کرے کہ کوئی باذوق اور محنتی شخص اس سلسلے کو مکمل کر دے۔ بلاشبہ یہ مجموعہ افادیت کے لحاظ سے سابقہ تمام مجموعوں سے افضل ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ ایک ہی مسئلہ میں مختلف علمائے اہل حدیث کے فتاویٰ (مع حوالہ) یکجا مل جاتے ہیں اگر کہیں ان کے درمیان اختلاف ہے تو اس کا بھی علم ہوتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فتویٰ دینے میں علمائے اہل حدیث نے کبھی کسی دوسرے شخص کی تقلید نہیں کی، بلکہ ہر ایک نے دلائل کی روشنی میں جس قول کو راجح سمجھا اس کے مطابق فتویٰ دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے اساتذہ اور مشائخ کی بھی پرواہ نہیں کی۔ یہ حریت فکر اور آزادی رائے صرف اہل حدیث علماء کے ہاں نظر آتی ہے آج بھی ان کے ہاں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔