کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 86
دوسری بار لاہور میں بھی 1972ء میں چھپا ہے۔ اس میں ہر طرح کے سوالات اور ان کے جواب مذکور ہیں، پرچے میں اشاعت کے پیش نظر جواب عموماً مختصر الفاظ میں ہیں۔ مسائل پر تفصیل کم ہی نظر آتی ہے۔ کتاب پر نظرثانی مولانا اشرف الدین دہلوی (م 1961ء) نے کی ہے، جگہ جگہ انہوں نے حواشی اور تعلیقات لکھے ہیں جن میں مسائل کی توضیح اور دلائل کا ذکر ہے، کہیں کہیں اختلافی نوٹ بھی چڑھاتے ہیں۔ اس مجموعہ میں مولانا امرتسری اور دوسرے لوگوں کی ایسی بہت سی تحریریں بھی شامل ہیں۔ جن کا فتاویٰ سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’اہل حدیث‘‘ کی تمام جلدیں (1903-1947ء) بھی مرتب کے پیش نظر نہ تھیں۔ ضرورت ہے کہ ازسرنو ان کے تمام فتاویٰ جمع کئے جائیں۔[1] حضرت حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ: مولانا امرتسری کے مدمقابل مولانا عبداللہ روپڑی (م 1384ھ) نے بھی اپنے پرچہ ’’تنظیم اہل حدیث‘‘ میں فتاویٰ [2]کا ایک باب رکھا تھا۔ اس میں ان کے سینکڑوں فتاویٰ شائع ہوئے جو میں کتابی شکل میں ’’فتاویٰ اہل حدیث‘‘ کے نام سے کئی جلدوں میں مرتب کئے گئے۔ جن میں سے بعض چھپ چکی ہیں۔ مولانا روپڑی، غزنوی علماء کے تربیت یافتہ تھے۔ اس لئے عقائد کے باب میں مسلک سلف کے وہ بھی زبردست حامی، اور صفاتِ باری میں تاویل کے سخت خلاف تھے۔ فروعی مسائل بھی ان کے فتاویٰ میں ان امور کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ امام انقلاب مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ: متاخرین میں گوجرانوالہ کے مولانا محمد اسماعیل سلفی (م 1387ھ) نے بھی بہت سے فتاویٰ لکھے جو ’’الاعتصام‘‘ (لاہور) اور دوسرے پرچوں میں شائع ہوئے۔ ان کا ایک مختصر مجموعہ ’’فتاویٰ سلفیہ‘‘ کے نام سے لاہور میں چھپا ہے۔ مولانا کی تحریریں
[1] ہمارے فاضل دوست بدر الزمان نیپالی نے ایک مقالہ میں ’’فتاویٰ ثنائیہ‘‘ پر تنقیدی تبصرہ کیا ہے جو محمد داؤد راز دہلوی کی مرتب کردہ کتاب ’’حیات ثنائی‘‘ میں شامل ہیں۔ [2] اس فتاویٰ کے مرتب کرنے والے مولانا محمد صدیق رحمہ اللہ سرگودھا والے ہیں۔ فتاویٰ اولاً 3 جلد بعد دو میں طبع ہوا۔ (جاوید)