کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 83
مدلل جواب دے کر مطمئن فرماتے۔ ان کے زمانے میں فرقہ بندی اور مذہبی تعصب کی وہ صورت نہ تھی جو افسوس کہ آج تمام مکاتب فکر کے یہاں پائی جاتی ہے اور علمی افادہ و استفادہ کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ شیخ حسین بن محسن انصاری رحمہ اللہ میاں صاحب کے معاصرین میں (م 1327ھ) کے ذریعہ علم حدیث کو بڑا فروغ ہوا۔ نواب صدیق خان رحمہ اللہ کے دور میں انہوں نے یمن سے ہجرت کر کے بھوپال میں سکونت اختیار کر لی تھی اور وہیں اپنا مسندِ درس بچھا رکھا تھا جہاں سینکڑوں علماء و طلبہ ان سے مستفید ہوئے انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سے فتاوے اور فقہی رسائل بھی لکھے جن کا مجموعہ ان کی وفات کے بعد ’’نور العين من فتاويٰ الشيخ حسين رحمه الله‘‘[1]کے نام سے ان کے لڑکے شیخ محمد عرب نے دو جلدوں میں تیار کیا تھا افسوس کہ اس کی طرف پہلی جلد لکھنو سے 1322ھ میں شائع ہوئی، دوسری کا کوئی پتہ نہ چل سکا ان فتاویٰ کے اندر شیخ حسین نے ہر ہر مسئلہ پر تفصیلی بحث کی ہے اور پوری تحقیق کے بعد دلائل کی روشنی میں راجح مسلک کی تعیین کی ہے، ان میں سے بعض سوالات ان کے شاگرد مولانا شمس الحق رحمہ اللہ عظیم آبادی نے کئے تھے جن کے جواب الگ سے چھوٹے چھوٹے رسالوں کی شکل میں بھی چھپ چکے ہیں اور اس مجموعے میں بھی شامل ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا عظیم آبادی ان سے بہت متاثر تھے، فتویٰ نویسی کا جو طرز انہوں نے اختیار کیا تھا وہ غالباً اپنے استاد ہی سے سیکھا تھا۔ شیخ حسین چونکہ بڑے محدث ہیں اس لئے کسی موضوع پر بحث کرتے وقت احادیث کی تحقیق و تنقید بسط و تفصیل سے کرتے ہیں اور تمام مآخذ کی طرف رجوع کر لینے کے بعد ہی کسی مسئلہ پر آخری رائے دیتے ہیں۔ میاں صاحب اور شیخ حسین بن محسن کے تلامذہ میں بہت سے علماء فتویٰ نویسی کے میدان میں مشہور ہوئے۔ مولانا شمس الحق عظیم آبادی (م 1329ھ) کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ ان کے علاوہ
[1] اس کا نسخہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد کی لائبریری میں بھی ہے۔ (جاوید)