کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 82
نہایت ہی مختصر مجموعہ دو ضخیم جلدوں میں مولانا شمس الحق عظیم آبادی وغیرہ کی کوششوں سے دہلی میں ’’فتاويٰ نذيريه‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر دوسری بار 1971ء میں لاہور میں بھی تین جلدوں میں چھپا ہے۔ اہل حدیث حضرات عام طور پر فتویٰ نویسی کے وقت میاں صاحب کی رائے معلوم کرنے کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس میں تقریباً اکثر فقہی مسائل مل جاتے ہیں۔ ان پر بحث بھی نسبتاً تفصیلی ہوتی ہے میاں صاحب کی عادت تھی کہ اکثر وہ اپنے تلامذہ سے جواب لکھوایا کرتے تھے اور وہ بڑی تحقیق اور جستجو کے بعد حدیث و فقہ کی کتابوں سے جواب کے لئے مطلوبہ مواد فراہم کیا کرتے تھے جو نادر نقول اور اقتباسات پر مشتمل ہوتا تھا پھر خود ہی جواب لکھ کر میاں صاحب کو دکھلایا کرتے۔ وہ اس پر تائیدی توضیحی نوٹ لکھ دیا کرتے۔ اس کے بعد وہ سائل کے نام روانہ کر دیا جاتا۔ ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ کے بہت سے فتاویٰ اس طرح فی الواقع میاں صاحب کے لکھے ہوئے نہیں۔ ہر فتویٰ کے اخیر میں لکھنے والے کا نام مذکور ہے۔ اگر کوئی چاہے تو پوری کتاب میں سے ایک شخص کے تمام فتاویٰ اکٹھا کر سکتا ہے، اور ان سے اس کے فقہی آراء کا جائزہ لینے میں مدد لے سکتا ہے۔ [1] اس اعتبار سے یہ کتاب نہ صرف مفتیوں کے لئے بلکہ سوانح نگاروں اور مورخوں کے لئے بھی اہم ہے۔ اس کی اہمیت کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے میاں صاحب کے زمانے کے علمی، فکری اور مذہبی حالات کی صحیح عکاسی ہوتی ہے۔ غلام احمد قادیانی کی تکفیر سے متعلق سب سے پہلے میاں صاحب نے ہی فتویٰ دیا تھا۔ سرسید احمد خان کے بعض افکار و خیالات پر تنقید احناف اور اہل حدیث کے درمیان بحث و مباحثہ، اور مختلف مذہبی فرقوں اور شخصیات پر تبصرہ بھی اس میں موجود ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ میاں صاحب کو اپنے زمانے میں کتنی مرجعیت اور شہرت حاصل تھی۔ ہر مکتب فکر کے لوگ ان کی طرف رجوع کرتے، علماء بھی اپنے علمی سوالات ان کے سامنے پیش کرتے اور وہ ہر ایک کو صاف اور واضح اسلوب میں
[1] کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں اشاریہ بھی شامل ہے جس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔