کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 80
ہیں جو برصغیر میں رائج ہیں۔ اپنے فتاویٰ میں وہ ان سے سرِمو انحراف کو وہابیت قرار دیتے ہیں اور اپنے تمام مخالفین کی تکفیر کرتے ہیں ان کے پیشوا مولانا احمد رضا خاں بریلوی (م 1340ھ) کے مجموعہ فتاویٰ ’’العطايا النبوية في الفتاويٰ الرضوية‘‘ پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے بدعات کو ترویج و اشاعت اور موضوع و بے اصل احادیث و اقوال سے ان کی تائید کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس سلسلے میں انہیں حنفی مسلک کے فقہی کتابوں میں موجود اپنے علماء کے فتووں کی بھی کوئی پرواہ نہ رہی۔ عقائد کے باب میں سینکڑوں ایسے ہیں جن کے بارے میں علمائے احناف کے اقوال واضح طور پر موجود ہیں، بلکہ خود امام ابو حنیفہ نے بھی ان سے متعلق رائے دی ہے۔ مگر مولانا بریلوی کو ان کے مطابق فتویٰ دینا پسند نہ آیا۔ ہمیشہ بدعت کو وہ سنت ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ آج تک یہی روش ان کے تمام متبعین نے اپنے فتاویٰ اور دیگر کتابوں میں اختیار کر رکھی ہے۔[1] اہل حدیث کے فتاویٰ: احناف کے بعد جب ہم علمائے اہل حدیث کے فتاویٰ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان کے یہاں فتویٰ نویسی کا ایک دوسرا انداز نظر آتا ہے۔ وہ کسی ایک امام کی تقلید کے بجائے تمام ائمہ کے اقوال سے استفادہ کرتے ہیں، مسائل کی تحقیق کے وقت پہلے براہ راست کتاب و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں، پھر سلفِ صالحین (صحابہ، تابعین اور تبع تابعین) کی آراء سامنے رکھتے ہیں اور دلائل کے مطابق جو قول راجح ہوتا ہے اس کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں وہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہے۔ ان کے یہاں احادیث و آثار سے استدلال کرتے وقت اس بات کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے کہ پہلے ان کی چھان پھٹک کر لی جائے اور صرف صحیح احادیث پر اعتماد کیا جائے۔ حدیث کے علاوہ فقہ
[1] دیکھئے: امیر صنعانی (م 182ھ) کا رسالہ ’’ارشاد النقاد إلي تيسير الاجتهاد‘‘ اور امام شوکانی (م 1250ھ) کا رسالہ ’’القول المفيد في أدلة الاجتهاد والتقليد‘‘ اور دیگر رسائل متعلق تقلید و اجتہاد۔ نیز دیکھئے: البدر المطالع 2/81-89 جہاں امام شوکانی رحمہ اللہ نے ایک حق پسند شخص کے لئے شریعت پر عمل کرنے کی راہ بتائی ہے۔