کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 79
کی تردید کریں عام طور پر اکثر مفتی حضرات فتاویٰ کی پچھلی کتابوں پر اعتماد کرتے ہوئے فتوے لکھتے ہیں۔ کتاب و سنت سے براہ راست مسائل کی تحقیق نہیں کرتے۔ دلائل میں اگر کہیں احادیث کا ذکر بھی کرتے ہیں تو ہر طرح کی رطب و یابس اور صحیح و ضعیف اکٹھا کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ان کی تنقید و تحقیق پر یا تو اس لئے توجہ نہیں دیتے کہ اس طرح اختلافی مسائل میں دوسروں کے مقابلے میں ان کے دلائل کی حقیقت آشکار ہو جائے گی یا پھر حدیث میں اس جیسی صلاحیت کے مالک نہیں ہوتے جس کا مظاہرہ وہ فقہی مباحث میں کیا کرتے ہیں۔ ایک اور نقص جو ان فتاویٰ میں نظر آتا ہے وہ یہ کہ عصر حاضر کے پیدا شدہ مسائل سے متعلق ان میں تشفی بخش بحث نہیں ہوتی جسے پڑھ کر جدید تعلیم یافتہ حضرات مطمئن ہو سکیں۔ اکثر علماء اپنے اسلاف کے حوالے سے (جنہیں وہ بڑے بڑے القاب سے متصف کرتے ہیں) ایسی باتوں کا ذکر کرتے ہیں جن سے مرعوب ہو کر کوئی شخص ازسرنو مسائل کی تحقیق کرنے کے لئے قدم اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ تبلیغی نصاب پڑھانے اور بہشتی زیور ’’پہنانے‘‘ کے بعد اگر کوئی کسر باقی رہ جاتی ہے تو اسے یہ فتاویٰ پوری کر دیتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ان کے اکثر علماء اب تک اجتہاد کے قائل نظر نہیں آتے۔ ان کے نزدیک اب بھی اس کا دروازہ بند ہے اور قیامت تک بند رہے گا حتیٰ کہ عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی بھی ان کے بعض اسلاف کے بقول حنفی المذہب ہوں گے اجتہاد کے بارے میں ان کا یہ نقطہ نظر جمہور علمائے محققین کے خلاف ہے۔[1] بریلوی علماء فروعی مسائل میں اپنے دیوبندی بھائیوں کے ہم مسلک ہیں، لیکن وہ ان سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ان تمام بدعات و خرافات کے قائل نظر آتے
[1] دیکھئے: شمس الدین قہستانی (م 953ھ) کی ’’جامع الرموز‘‘ اور ’’حصكفء‘‘ (م 1088ھ) کی ’’الدرالمختار‘‘ 1/56 سیوطی (م 911ھ) نے اپنے رسالہ ’’الاعلام بحكم عيسيٰ عليه السلام‘‘ اور ’’الحاوي للفتاويٰ‘‘ (2/155-167) اور ابن عابدین (م 1252ھ) نے ’’رد المختار‘‘ 1/57 میں عیسیٰ علیہ السلام کے مقلد ہونے کی تردید کی ہے۔ اسی طرح ملا علی قاری (م 1014ھ) نے ’’المشرب الوردي في مذهب المهدي‘‘ اور طحطاوی م 1231ھ نے حاشيه الدر المختار میں امام مہدی کے حنفی ہونے سے متعلق ایک طویل افسانے کو بے اصل بتایا ہے اور ان کا مجتہد مطلق ہونا ثابت کیا ہے۔