کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 78
کی چار جلدوں اور پانچ تتموں، نیز ’’حوادث الفتاویٰ‘‘، ’’ترجیح الراجح‘‘ اور رسالہ ’’النور‘‘ میں شائع شدہ فتاویٰ پر مشتمل ہے)جدید تبویب و ترتیب کے بعد 6 جلدوں میں ’’امداد الفتاویٰ‘‘ کے نام سے کراچی میں شائع کئے (1382ھ تا 1393ھ) اور اس طرح مولانا تھانوی کے زندگی بھر کے تمام فتاویٰ کو یکجا ہو گئے اور ان سے استفادہ آسان ہو گیا، مولانا تھانوی کو دیوبندی حلقوں میں عصرِ حاضر کی سب سے زیادہ متبرک اور اثر آفریں شخصیت تصور کیا جاتا ہے اس لحاظ سے ان کے فتاویٰ کی جو اہمیت ہو گی وہ ظاہر ہے۔ آج بھی علمائے دیوبند ان پر اعتماد کرتے ہیں اور فتویٰ نویسی کے وقت ان کی رائے بلا چون و چرا نقل کرتے ہیں۔ مفتی کفایت اللہ دہلوی: مفتی کفایت اللہ دہلوی کے فتاویٰ کی 9 جلدیں ’’کفایۃ المفتی‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں انہوں نے اپنی زندگی میں بے شمار فتوے لکھے جن کا تعلق ہر طرح کے دینی و دنیاوی امور سے ہے۔ جمیعۃ العلماء کے موسسین میں ہونے کی وجہ سے انہیں مسلمانوں کے ملی و سیاسی مسائل کا گہرا شعور تھا جب کہ دوسرے دیوبندی مفتیوں کو عام طور پر سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا انہوں نے اس طرح کے اکثر مسائل میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور جانب داری سے اپنا دامن بچانے میں کامیاب رہے اس لحاظ سے ان کے فتاویٰ کا مجموعہ قابل مطالعہ ہے۔ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند کے فتاویٰ کے ترتیب و اشاعت کا سلسلہ جاری ہے اب تک اس کی 11 جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ ادھر مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کے فتاویٰ بھی ترتیب دیے جانے لگے ہیں ان کی پہلی جلد مولانا خلیل احمد سہارن پور کے فتاویٰ پر مشتمل طبع ہو چکی ہے جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ علمائے احناف کے فتاویٰ کے مجموعوں پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے فقہی مسائل میں اپنے مذہب کی سختی سے پابندی کی اور دوسرے مکاتب فکر کی آراء سے کم ہی استفادہ کیا ہے اگر کہیں اپنے مذہب کے خلاف کسی کا قول نقل بھی کرتے ہیں تو اس غرض سے کہ اس