کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 76
کے جواب دئیے ہیں۔ یہ ان کے زمانہ قیام حیدر آباد کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کی ’’فتاویٰ رشیدیہ‘‘ کا شمار احناف[1] کے ہاں اہم ترین کتب فتاویٰ میں ہوتا ہے ان کے اکثر علماء نے اپنے فتاویٰ میں اس پر اعتماد کیا ہے اور مولانا کی رائے کو بڑی اہمیت دی ہے، اس میں اس زمانے کے بعض جدید مسائل سے متعلق ایسی آراء کا اظہار کیا گیا ہے جو آج بڑے ہی حیرت انگیز معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا گنگوہی نے منی آرڈر کے ذریعے رقم بھیجنے کو ناجائز قرار دیا ہے اس جیسے اور بھی بعض مسائل ہیں جن کا استقصاء یہاں مقصود نہیں۔ [2] مولانا خلیل احمد سہارنپوری: مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے فتاویٰ کا مجموعہ ’’فتاویٰ خلیلیہ‘‘ کے نام سے 1983ء میں شائع ہوا ہے، یہ فتاویٰ مولانا نے مدرسہ مظاہر علوم (سہارن پور) کے شعبہ افتاء کی طرف سے لکھے تھے۔ دوسرے علماء کی طرح ان کے فتاویٰ میں بھی حنفی مسلک کی شدت کے ساتھ پابندی نظر آتی ہے۔ بحیثیت محدث ان کی شہرت کی وجہ سے ہمیں توقع تھی کہ وہ احادیث کی تحقیق اور ان میں صحیح و ضعیف کی تمیز کے بعد ہی استدلال کی عمارت کھڑی کریں گے۔ لیکن فتاویٰ کے اس مجموعہ کو دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔ مولانا نے اس جانب توجہ نہیں دی ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہاں عورتوں کو لکھنا سکھانے سے متعلق
[1] خصوصاً شیخ محمد زاہد الکوثری کے نظریات سے مستفید ہونے کے بعد جو عقائد میں کٹر اشعری (بلکہ جہمی) اور فروع میں متعصب حنفی تھے، اور جن کی نگاہ میں شاہ ولی اللہ بھی نہیں جچتے۔ محدثین کرام اور سلف صالحین کے باری میں جو اہانت آمیز کلمات ان کے قلم سے نکلے ہیں ان کا صدور کسی متقی اور ’’زاہد‘‘ سے بعید ہے۔ ان کے تابوت میں آخری کیل محمد بہجۃ البیطار (مؤلف) ’’الكوثري و تعليقاته‘‘ اور علامہ عبدالرحمٰن بن معلّمی (مؤلف) ’’التنكيل بماني تانيب الكوثري من الأباطيل‘‘ نے ٹھونک دی ہے۔ مگر ہمارے حنفی بھائی اب بھی گڑھے مردے اکھاڑنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں، اللہ انہیں ہدایت دے۔ [2] دیکھئے مشیر الحق کا ایک مضمون ’’فتاویٰ اور عصری مسائل‘‘، در: اسلام اور عصر جدید (نئی دہلی) اپریل 1970 ص 51-64