کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 73
پہلے غالباً عربی میں لکھی گئی جس کے متعدد نسخوں کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے اسے فارسی میں بھی لکھا۔ اس کے حصہ اول (جو عبارت سے متعلق ہے) کا ایک نسخہ پنجاب یونیورسٹی (لاہور) کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ [1] فتاویٰ امینیہ: 948ھ کے قریب مرتب کی گئی۔ مقدمہ میں مؤلف اپنا نام محمد امین عبیداللہ مومن آبادی بتاتا ہے اور لکھتے ہیں کہ اس نے اپنی عمر اور دورِ شباب کا بڑا حصہ بخارا میں اجلہ فقہاء کی صحبت میں گذارا۔ پھر اسے شوق پیدا ہوا کہ وہ فتاویٰ کا ایک مجموعہ تیار کرے۔ چنانچہ یہ کتاب لکھی۔ مصنف کے حالات، تذکرہ اور سوانح کی کتابوں میں نہیں ملتے۔ اتنا معلوم ہوتا ہے کہ غالباً وہ ہمایوں کے عہدِ حکومت میں بخارا سے ہندوستان آئے تھے، کتاب عام فقہی کتابوں کی طرز پر مرتب ہے اس میں جا بجا فقہ حنفی کے مشہور مآخذ کے حوالے دئیے گئے ہیں۔ بالخصوص مختار الاختیار سے کافی استفادہ کیا گیا ہے۔ اس کے قلمی نسخے ایشیاٹک سوسائٹی، آصفیہ اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں موجود ہیں۔[2] فتاویٰ بابری: ’’فتاویٰ بابری‘‘ مشہور مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے زمانے (899-939ھ) کی تصنیف ہے۔ اس کے مصنف شیخ نور الدین خوانی کے حالات متداول کتابوں میں نہیں ملتے، اتنا معلوم ہے کہ وہ زین الدین خوانی کی اولاد میں سے ہیں۔ کتاب کے دیباچہ سے یہ بھی پتہ چلتا چلتا ہے کہ 925ھ کے اواخر میں بابر کی خدمت میں ان کو بازیابی حاصل ہوئی اور اسی کے حکم سے فتاویٰ کا یہ مجموعہ تیار کیا جس میں فقہ حنفی کی کئی مستند کتابوں پر اعتماد کیا ہے اور ہر ایک کے لئے ایک علامت مقرر کی ہے۔ اس کتاب کے قلمی نسخے پٹنہ اور برہان پورہ میں موجود ہیں۔[3]
[1] دیکھئے: برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ ص 167-178، نیز معارف (اعظم گڑھ) مئی 1930 [2] تفصیل کے لئے دیکھئے: کتاب مذکور ص 197-221 [3] تفصیل کے لئے دیکھئے: کتاب مذکور ص 234-244 نیز معارف (اعظم گڑھ) جولائی 1950