کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 72
پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں عربی کتابوں کی طرح اہمیت اور شہرت کی حامل کوئی کتاب نہیں ملتی ان میں سے اکثر تو دستبردِ زمانہ کی نذر ہو چکی ہیں جو بچی ہیں وہ بھی مختلف کتب خانوں میں قلمی صورت میں پڑی ہیں اور بہت کم ان کی طرف توجہ دی گئی ہے، مطبوعہ کتابیں چند ایک ہیں جن تک مکہ مکرمہ میں ہماری رسائی نہ ہو سکی۔ ذیل میں ان تالیفات پر مختصر تبصرہ اپنی یاداشت اور چند مآخذ و مراجع پر اعتماد کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ قلمی کتابوں میں ’’فتاویٰ قراخانی‘‘، ’’فتاویٰ ابراہیم شاہی‘‘، ’’نسخہ فارسی‘‘، ’’فتاویٰ امینیہ‘‘ اور ’’فتاویٰ بابری‘‘ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب جلال الدین فیروز شاہ خلجی کے عہد (688-695ھ) کی تالیف ہے اس کے اصل مصنف کا نام صدر الدین یعقوب مظفر کرمانی ہے اس کی وفات کے بعد اس کو موجودہ شکل میں قبول فراخان نے مرتب کیا۔ اسی کی نسبت سے فتاویٰ قراخانی کہا جاتا ہے۔ کتاب شروع سے آخرت تک سوال و جواب کی صورت میں ہے۔ اس کے متعدد قلمی نسخے انڈیا آفس (لندن) آصفیہ (حیدر آباد) ایشیاٹک سوسائٹی (کلکتہ) پنجاب یونیورسٹی (لاہور) اور پنجاب پبلک لائبریری (لاہور) میں موجود ہیں۔ [1] کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر سوال کا جواب دیتے ہوئے کسی مستند فقہی کتاب سے اقتباس دیا گیا ہے۔ ماخذ خواہ عربی ہو یا فارسی اس کی اصل عبارت نقل کی گئی ہے۔ فتاویٰ ابراہیم شاہی: قاضی احمد بن محمد جونپوری (م 874ھ) کی تالیف ہے۔ حاجی خلیفہ کے بقول [2] یہ فتاویٰ قاضی خان کی طرح مبسوط و مفصل کتاب ہے۔ مصنف نے 160 کتابوں کی مدد سے سلطان ابراہیم شرقی والی جونپور (803-844ھ) کے لئے اس کی جمع و تدوین کی۔ فتاویٰ عالمگیری کے مقدمہ میں اس کا غیر معتبر کتابوں میں شمار کیا گیا اور لکھا ہے کہ یہ قاضی شہاب الدین دولت آباد کی تصنیف ہے مگر یہ درست نہیں، یہ کتاب
[1] تفصیل کے لئے دیکھئے: برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ ص 61-98 [2] دیکھئے: برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ ص 167-178، نیز معارف (اعظم گڑھ) مئی 1930