کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 71
عالم اسلام میں قبولیت اور شہرت حاصل ہوئی۔ ہندوستان مصر اور بیروت میں وہ بار بار چھپی۔ اس کے فارسی اور اردو اور (بعض مباحث میں) انگریزی ترجمے بھی ہوئے۔ ہندوستان کی انگریزی عدالتوں میں مسلمانوں کے شرعی مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک مدت تک فتاویٰ عالمگیری پر عمل ہوتا رہا۔ آج بھی مفتی، قاضی اور محقق علماء اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل اس حقیقت کا اظہار کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فتاویٰ کی مذکورہ بالا تمام کتابیں دراصل منتخب فقہی مسائل کے مجموعے ہیں جن کی تالیف اس مقصد کے پیش نظر عمل میں آئی ہے کہ مفتیوں، قاضیوں اور فقیہوں کو اپنے مذہب کے مفتی بہ اقوال معلوم کرنے میں مدد ملے اور ان کے مطابق مختلف مسائل میں لوگوں کی رہنمائی اور شرعی عدالتوں میں مقدمات کے فیصلے صادر کرنا آسان ہو۔ یہ مجموعے شخصی فتاویٰ سے کئی اعتبار سے مختلف ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ ان میں استفتاء اور افتاء کی صورت نہیں ہوتی۔ دوسری یہ کہ ان میں تمام ممکن الوقوع مسائل فقہ کی مختلف کتابوں سے جمع کر دئیے جاتے ہیں۔ اس طرح انہیں ایک مسلک کی فقہی آراء کا انتخاب کہا جا سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ ان سے کسی مخصوص زمانے میں پیش آئے ہوئے مسائل اور مشکلات کا علم نہیں ہوتا کیونکہ ان میں عام طور پر پچھلی کتابوں کے اقتباسات ہوتے ہیں۔ اپنے زمانے کے مسائل کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی جاتی چنانچہ کسی مخصوص زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات، مختلف فکری رجحانات، رسم و رواج اور بدعات و خرافات کا پتہ چلانے کے لئے ان کتابوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہتی لیکن انہیں شخصی فتاویٰ پر یک گونہ فضیلت اس وجہ سے ہے کہ ان میں عام طور سے مذہب کے مفتی بہ اور راجح اقوال ذکر کئے جاتے ہیں شخصی فتاویٰ میں ہر عالم کی ذاتی رائے درجہ ہوتی ہے جو ممکن ہے مفتی بہ قول کے خلاف ہو۔ یہ بہرحال دونوں طرز کی کتب فتاویٰ اپنی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اس مختصر وضاحت کے بعد جب ہم گزشتہ صدی تک فتاویٰ کے فارسی مجموعوں