کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 70
تلاش و جستجو کے بعد بعض محققین نے ان میں سے 28-29 علماء کا پتہ چلایا ہے اور ان سے متعلق معلومات جمع کی ہیں۔ [1] ان میں وہ چار علماء جنہیں ایک ایک ربع تفویض کیا گیا تھا یہ ہیں: قاضی محمد حسین جونپوری (م 1080ھ) ملا محمد اکرم الاہوری (م 1116ھ) سید جلال الدین محمد مچھلی شہری اور شیخ وجیہ الدین گوپاموی (1083ھ)[2] فتاویٰ عالمگیری کو بعض خصوصیات کی وجہ سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس میں جو مسائل بیان کئے گئے ہیں وہ یا تو راجح اور مفتی بہ ہیں یا کتب ظاہر الروایۃ کے ہیں ایسے مسائل بہت کم درج کئے گئے ہیں جو شاذ اقوال پر مبنی ہیں۔ اختلاف اقوال کی صورت میں سیر حاصل بحث کے بعد صرف وہی قول ذکر کیا گیا ہے جو راجح ہے۔ جملہ مسائل پر بحث و تمحیص اور ان کی تشریح و توضیح میں کمالِ احتیاط اور ذہانت کا ثبوت دیا گیا ہے۔ مسائل کی تکرار اور متن میں حشو و زوائد سے پرہیز کیا گیا ہے اور چونکہ یہ علمائے فقہ کی ایک جماعت کی تگ و تاز علمی کا نتیجہ ہے اس لئے ضخامت کے باوجود ان اغلاط و اسقام اور نقائص و عیوب سے بڑی حد تک پاک ہے جو عام طور پر دوسری فقہی کتابوں میں نظر آتے ہیں اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مسئلہ کے ماخذ کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس کی اصل عبارت نقل کی گئی ہے اس کے مآخذ و مصادر کی تعداد 130 سے بھی زیادہ ہے ان میں فقہ حنفی کی تمام اہم اور قابل ذکر کتابیں شامل ہیں ابواب کی تقسیم اور مضامین کی ترتیب ’’ہدایہ‘‘ کے طرز پر ہے جس کی وجہ سے تلاشِ مسائل میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ فتاویٰ عالمگیری کی یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اسے تمام
[1] دیکھئے: معارف (اعظم گڑھ) 1946ء سے 1948 تک کے مختلف شمارے، ’’مقالات منتخبہ اورینٹل کالج میگزین 1925 تا 1970‘‘ میں صادق علی دلاوری کا مضمون ’’فتاویٰ عالمگیری اور اس کے مؤلفین‘‘ برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ ص 269-341، اردو دائرہ معارف اسلامیہ 15/148-149 از بزمی انصاری و 15/150-155(تعلیقہ، از محمد اسحاق) الثقافة الاسلامية في الهند ص 110، 111 زبیر احمد ص 72-74 [2] یہ نام بزمی انصاری نے اپنے مقالے میں ذکر کئے ہیں (اردو دائرہ معارف اسلامیہ 15/147) عبدالحئی حسنی ’’الثقافة الاسلامية في الهند‘‘ (ص 111) میں آخر الذکر دونوں علماء کے بجائے شیخ علی اکبر حسینی (م 1090ھ) اور شیخ حامد جونپوری کے نام مرآة العالم کے حوالے سے لکھے ہیں۔