کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 63
ہے۔ اسے مختلف علوم و فنون سے متعلق مسائل و مباحث کا ایک انسائیکلوپیڈیا کہا جا سکتا ہے۔ اس میں تفسیر (جلد 13 تا 17)، حدیث (جلد 18) فقہ (جلد 21 تا 35) اصول فقہ (جلد 19، 20) عقیدہ (جلد 1 تا 8، 12)، تصوف (جلد 10، 11) اور منطق (جلد 9) کے موضوعات پر بے نظیر بحثیں ملتی ہیں۔ امام ابن تیمیہ کو اللہ تعالیٰ نے لکھنے کا عجیب ملکہ عطا کیا تھا وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں۔ بڑے ہی آسان اسلوب میں لکھتے ہیں جسے سہل ممتنع کہا جا سکتا ہے [1] عربی کی متوسط استعداد رکھنے والا بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ ان کی دوسری خصوصیات یہ ہے کہ کوئی بات بغیر دلیل کے نہیں کہتے، آیات و احادیث سے ایسا برمحل استدلال کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے ان کے استعمال کی سب سے مناسب جگہ یہی ہے۔ تیسری خصوصیت جو دوسری کتب فتاویٰ میں بہت کم نظر آتی ہے یہ کہ صرف صحیح حدیثوں پر اعتماد کرتے ہیں، ضعیف اور ناقابل استدلال حدیثوں کی واضح طور پر نشاندہی کرتے ہیں۔ چوتھی بات یہ ہے کہ مسائل پر اتنی تفصیل سے کلام کرتے ہیں کہ ان کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رہ جاتا یہ اور ان جیسی بہت سی خصوصیات ہیں جن کی بناء پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فتاویٰ کا مجموعہ اس فن کی تمام کتابوں میں ممتاز ہے۔ یہ مجموعہ معروف معنوں میں صرف فتاویٰ پر مشتمل نہیں بلکہ ان کے دوسرے بہت سارے رسائل اور تالیفات کو حاوی ہے اس لئے ہر طرح کے مباحث و مسائل سے متعلق امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نقطہ نظر معلوم کرنے کے لئے اس کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے افکار سے بعد میں آنے والے تمام مصلحین و مفکرین بڑی حد تک متاثر ہوئے ان کے تلامذہ (امام ابن قیم رحمہ اللہ، امام ابن کثیر رحمہ اللہ، امام ذہبی رحمہ اللہ اور امام ابن عبدالہادی رحمہ اللہ وغیرہم کے علاوہ بہت سے فقہاء مسائل کی تحقیق، احادیث کی چھان بین، اصول و فروع میں کتاب و سنت کی طرف براہ راست رجوع، سلف صالحین (صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین) کے مسلک کے اتباع، اختلافی مسائل میں دلائل
[1] یہاں میں منهاج السنة 4/158-159 کی طرف قارئین کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جہاں انہوں نے اپنے زمانے کے شعراء، خطباء اور انشاء پردازوں کے بے جان اور مقفی و مسجع اسلوب پر سخت تنقید کی ہے اور اسے خلاف فصاحت قرار دیا ہے۔