کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 56
ہے اور مخالف و موافق دلائل کا جائزہ لیا ہے۔ سیوطی کی ’’الحاوي‘‘ ان کے 83 مستقل رسالوں اور تفسیر، حدیث، فقہ، عقیدہ، لغت اور نحو وغیرہ سے متعلق ان کے چھوٹے بڑے سینکڑوں فتاویٰ پر مشتمل ہے، منظوم سوالات کے جواب میں انہوں نے منظوم فتوے لکھے، سیوطی اپنی وسعت معلومات کے لئے مشہور ہیں۔ تقریباً تمام فنون کی اکثر نادر و نایاب کتابوں پر ان کی نظر تھی، اس وجہ سے وہ کسی موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے ہر فن کے مراجع و مآخذ سے استفادہ کرتے ہیں۔ اور کہیں بھی کوئی بات بغیر حوالے کے نہیں لکھتے۔ ان کی کتابوں میں بس ایک چیز کھٹکتی ہے، وہ یہ کہ انہوں نے فتاویٰ اور دیگر تالیفات میں بہت سی ضعیف حدیثوں سے استدلال کیا ہے اور ان کے ضعف کی طرف اشارہ کئے بغیر گزر گئے ہیں۔ چونکہ احادیث کی سند کا بھی عموماً ذکر نہیں کرتے اس لئے قارئین کو (خصوصاً اگر وہ حدیث کے عالم نہ ہوں) یہ دھوکہ ہوتا ہے کہ یہ سب حدیثیں قابل استدلال اور صحیح ہیں۔ الفتاويٰ الحديثية“ اور ”الفتاويٰ الفقهيةمیں ابن حجر هيثمي رحمه الله نے بہت سے فقہی مسائل سے متعلق احادیث کی روشنی میں فتوے دیے ہیں۔ لیکن علم حدیث میں ان کی مہارت فقہ جیسی نہ تھی۔ اس لئے بہت سی جگہوں پر ٹھوکر کھا گئے خصوصاً عقائد کے بعض بنیادی مسائل کے بارے میں انہوں نے جو موقف اپنی اشعریت کے پیش نظر اختیار ہے ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر جس طرح زبان طعن و ساز کی ہے وہ بڑا ہی افسوس ناک ہے۔ علامہ شمس الحق رحمہ اللہ عظیم آبادی کے استاد شیخ خیر الدین نعمان بن محمود آلوسی (م 1217ھ) نے اپنی بے نظیر کتاب ”جلاء العينين في محاكمة الاحمدين“ میں اس موضوع پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے جس کے بعد پھر ابن حجر ہیثمی کے اعتراضات اور اتہامات کی کوئی حقیقت نہیں رہتی۔ علمائے شافعی کے فتاویٰ: شافعی علماء کی کتب فتاویٰ مجموعی طور پر احناف کی کتابوں سے مسائل کی تحقیق،