کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 52
آتا بھی ہے تو صحیح و ضعیف اور مرفوع و موقوف کے درمیان کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ پورا زور اپنے مذہب کے مطابق کے مسائل کی تخریج یا اپنے مسلک کے مختلف علماء کے متعارض اقوال کے درمیان تطبیق و ترجیح میں صرف ہوتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے علماء کے اقوال بلا دلیل درج کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں اصل مأخذ کی طرف رجوع کئے بغیر اطمینان نہیں ہوتا۔ کتب فتاویٰ کے ان ہی نقائص کے پیشِ نظر نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ انہیں خرافات اور افسانے قرار دیتے ہیں اور ان میں پڑ کر وقت ضائع کرنے سے روکتے ہیں۔ [1] اس لئے کہ وہ عموماً ایسے بہت سے اقتباسات اور تفریعات پر مشتمل ہوتے ہیں جن کی تائید قرآن و حدیث سے نہیں ہوتی پھر ان مفتیوں کے اقوال ایک مسلک سے متعلق ہونے کے باوجود باہم اتنے مختلف ہیں کہ عقل حیران ہو جاتی ہے۔ مگر ان خوبیوں کے باوجود (اور یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ کتب فتاویٰ کا شمار تیسرے درجے کی کتابوں میں ہے) چند امور میں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ان سے تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں مسلمانوں کے سماجی، سیاسی، تمدنی اور فکری حالات کی عکاسی ہوتی ہے ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کو کب کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے بارے میں علماء کا کیا موقف رہا۔ ہر زمانے اور ہر علاقے کے رسم و رواج اور مروجہ بدعات کا تصور بھی ان کتابوں سے سامنے آتی ہے۔ علماء کے فتاویٰ کا رد عمل عوام پر کیا ہوتا تھا؟ سلاطین و امراء اور طلبہ و عوام سے ان کے تعلقات کیسے تھے؟ ہر زمانے میں کن علماء کو فتویٰ نویسی کے میدان میں شہرت ملی؟ ان کے علم و فہم اور فقہ و بصیرت کا کیا حال تھا؟ یہ اور ان جیسے بیسیوں امور ہیں جن کے لئے کتب فتاویٰ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ ہمیں تاریخ و تذکرے کی قدیم کتابوں کے ساتھ کتب فتاویٰ کو نہ بھولنا چاہیے۔ بعض اہل علم اب اس جانب متوجہ ہوئے ہیں [2] اور فتاویٰ کا اس نقطہ نظر سے مطالعہ کرنے لگے ہیں۔
[1] ابجد العلوم 2/395-396 [2] دیکھئے: سعد غراب کا مضمون ’’كتب الفتاويٰ و قيمتها الاجتماعيه‘‘ در: حولیات الجامعۃ التونیسۃ (تونس) جلد 16 ص 65-102