کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 49
صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے آراء و اقوال سے استفادہ کی طرف توجہ ہوئی جس کے نتیجے میں اہل حدیث اور سلفی علماء کا ایک بڑا گروہ وجود میں آیا۔ جس نے اجتہاد کا دروازہ جسے مقلدین نے ہمیشہ کے لئے بند کر دیا تھا، پھر سے کھول دیا۔ عصر حاضر میں اب تمام حق پسند اور منصف مزاج علماء اجتہاد کی ضرورت کے قائل نظر آتے ہیں۔ اور کسی ایک مذہب کی تقلید اور اس پر جمود کے بجائے تمام مذاہب سے استفادہ، ان کے تقابلی مطالعہ اور دلائل کی روشنی میں راجح مذہب کی تعیین کی دعوت دیتے ہیں اور نصوصِ کتاب و سنت کی موجودگی میں قیاس کو غلط قرار دیتے ہیں۔ یہ مقولہ اب زبان زد ہو چکا ہے ’’الاجتهاد فيما لا نص فيه‘‘ (اجتہاد کو ان ہی مسائل میں دخل ہو گا جن کے بارے میں کتاب و سنت میں کوئی نص وارد نہیں) اس طریقہ کار کے مطابق اب فقہ کی کتابیں تیار کی جانے لگی ہیں۔ شیخ سید سابق کی کتاب ’’فقه السنه‘‘ ان میں سب سے زیادہ کامیاب کتاب تصور کی جاتی ہے محدثِ عصر علامہ محمد ناصر الدین الألبانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الثمر المستطاب في فقه السنة والكتاب‘‘ اب تک طبع نہیں ہوئی امید کہ وہ بھی اس موضوع پر شاہکار ہو گی۔ اس مختصر سے تبصرے کے بعد اب ذیل میں کتب فتاویٰ کا ایک جائزہ لیا جا رہا ہے۔ (2) علم فتاویٰ کا شمار فقہ کے فروع ہوتا ہے۔ طاش کبری زادہ (م 968ھ) نے اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے[1] کہ: اس میں جزئی واقعات کے بارے میں فقہاء سے صادر ہونے والے فروعی احکام بیان کئے جاتے ہیں اور غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ بعد میں آنے والے قوت استنباط سے محروم لوگ سہولت کے ساتھ ان سے استفادہ کر سکیں۔ عبدالنبی احمد نگری لکھتے ہیں: [2]فتاویٰ سے عموماً شریعت اسلامی کے وہ فروعی مسائل مراد ہوتے ہیں جن کے بارے میں کسی فقہی کتب فکر کے بانی یا اس کے ساتھیوں
[1] مفتاح السعادة 2/601 (طبع قاہرہ) نیز دیکھئے: ابجد العلوم 2/395 (طبع بیروت) [2] دستور العلماء 3/13