کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 48
رجوع اور دیگر ائمہ مجتہدین و فقہائے امت کی آراء سے استفادہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ ان مقلدین کے بالمقابل علمائے حدیث کی ایک جماعت ہر دور میں ایسی بھی رہی ہے جو سلف صالحین، (صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین) کے طریقے پر کاربند رہی۔ فتویٰ نویسی کے وقت انہوں نے وہی طریقہ اپنایا جو سلف کے یہاں رائج تھا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م 728ھ) نے اپنے فتاویٰ میں اسی طریقے کی پیروی کی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مسائل میں انہوں نے ائمہ اربعہ تک مخالفت کی ہے، گزشتہ دو تین صدیوں میں فتویٰ نویسی کے اس رجحان کو کافی فروغ ہوا۔ ہندوستان، مصر اور دیگر بلاد عربیہ میں سلفی تحریک کے علمبرداروں نے جمہود و تقلید کے خلاف جو کوششیں کی ہیں ان کا اثر فتویٰ نویسی پر بھی پڑا ہے۔ اس رجحان سے مقلدین بھی جزوی طور پر متاثر ہوئے چنانچہ خلافت عثمانیہ کے عہد میں جب 1286ھ میں ’’مجلة الأحكام العدلية‘‘ کی تدوین ہوئی تو پہلی بار مذاہب اربعہ کی تقلید سے ہٹ کر بعض مسائل میں ابن شبرمہ رحمہ اللہ کے مسلک پر فتویٰ دیا گیا۔ پھر 1929ء اور 1936 میں مصر میں تقلید کی ڈگر سے نکلنے کی کوشش ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ مصالح مرسلہ اور حالات و زمانے کی رعایت کرتے ہوئے جملہ فقہائے اسلام کے اقوال کو فتاویٰ کی بنیاد بنایا جائے۔ برصغیر میں اہل حدیث تو شروع ہی سے اس طریقے پر کاربند ہیں۔ اخیر میں مفتی محمد شفیع دیوبندی نے اپنی بعض کتابوں میں حنفی مسلک کی بجائے مالکی مسلک کی بنیاد پر مفقود الخبر کی بیوی کے نکاح ثانی کے بارے میں فتویٰ دیا۔ 1972ء میں حیدر آباد کے اندر طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے پر جو سیمینار ہوا تھا اس میں بھی حنفی علماء نے اس مسئلے میں اپنا مسلک ترک کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ اوپر فتویٰ نویسی کے عہد بہ عہد جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ ابتدائی صدیوں میں فتویٰ نویسی کے وقت احادیث و آثار اور فتویٰ صحابہ و تابعین پر اعتماد کیا جاتا تھا بعد میں تقلیدی مذاہب وجود میں آئے اور ان کے اصول و ضوابط وضع کئے گئے۔ چنانچہ فتویٰ نویسی میں بھی جمود و تقلید کے آثار نمایاں ہوئے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر فقہائے محدثین کی کوششوں سے پھر کتاب و سنت کی طرف براہ راست رجوع اور سلف صالحین،