کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 47
مصر کے مفتی: مصر میں یزید بن ابی حبیب رحمہ اللہ اور ان کے بعد امام لیث بن سعد رحمہ اللہ اپنے اپنے زمانے کے مفتی تھے۔ ان کے علاوہ بغداد اور دیگر شہروں میں بہت سے علماء فتویٰ دیتے رہے۔ ان میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ، امام اسحٰق بن راہویہ رحمہ اللہ، امام ابو ثور رحمہ اللہ، امام داؤد رحمہ اللہ ظاہری اور امام اہل سنت ابن جریر طبری رحمہ اللہ وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری صدی: دوسری صدی ہجری میں بعض اصول و قواعد میں اختلاف کی وجہ سے فقہاء کے دو گروہ ہو گئے۔ [1] ایک اہل حدیث کا گروہ تھا جو احادیث نبویہ اور صحابہ کے فتویٰ کی بنیاد پر فتویٰ دیتا تھا اور جب تک کسی واقعہ کا ظہور نہ ہو جاتا اس وقت تک اس کے بارے میں شرعی حکم بیان کرنے سے گریز کرتا تھا۔ اس گروہ میں علمائے حجاز کی غالب اکثریت شامل تھی۔ دوسرا گروہ اہل الرائے: دوسرا گروہ اہل الرائے کا تھا جس میں فقہائے عراق کی غالب اکثریت تھی ان کے پاس چونکہ صحیح احادیث کم تھیں۔ اس لئے انہوں نے فتویٰ دیتے وقت عام طور پر رائے اور قیاس کا کثرت سے استعمال کیا، بعض ایسے قواعد وضع کئے جن کو سامنے رکھ کر پیش آمدہ اور آئندہ پیش آنے والے بلکہ محال اور غیر ممکن الوقوع ہزاروں مسائل سے متعلق اپنی رائے ظاہر کی، اور انہیں فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں جمع کر گئے۔ ائمہ مجتہدین کے بعد ان کے متبعین و مقلدین مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ فتاویٰ کے سلسلے میں اپنے مسلک کی توجیہہ و تائید میں لگ گیا، اس طرح فتاویٰ کا اجراء اجتہاد کے بجائے تقلید کی بنیاد پر ہونے لگا۔ اور تقلید کی روش ایسی مرغوب ہوئی کہ ہر مفتی اپنے مذہب کے اصول و فروع کے ارد گرد گھومتا رہا اسے براہ راست کتاب و سنت کی طرف
[1] دیکھئے۔ حجة الله البالغة کا مبحث”باب الفرق بين اهل الحديث و أهل الرأي“