کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 45
مختصر مجموعہ تیار کیا جا سکتا ہے باقی اور لوگوں سے زیادہ سے زیادہ ایک دو مسئلے منقول ہیں ان سب کے فتاویٰ بھی اگر جمع کئے جائیں تو ایک چھوٹا سا مجموعہ بنے گا، کچھ علماء نے بعض صحابہ کرام کے فتاویٰ و مسائل جمع کرنے کی طرف توجہ دی تھی، چنانچہ ابوبکر محمد بن موسیٰ بن یعقوب بن مامون نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ بیس حصوں میں جمع کئے تھے [1] اور تقی الدین سبکی رحمہ اللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ کا ایک مجموعہ تیار کیا تھا [2] مگر یہ دونوں کتابیں دستبرد زمانہ سے محفوظ نہ رہیں۔ عصر حاضر میں اس طرف دوبارہ توجہ ہوئی ہے اب تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فقہی مجموعے شامل ہو چکے ہیں۔ ’’موسوعة فقه السلف‘‘ کے نام سے بھی بہت سے صحابہ و تابعین کے آراء و مسائل کا مجموعہ مکہ مکرمہ سے کئی سال قبل چھپا تھا جو نامکمل سہی لیکن پھر بھی اہل علم اور عام قارئین کے لئے مفید ہے۔ عہد صحابہ کے مفتی: عہد صحابہ میں فتاویٰ کا سلسلہ زبانی اور تحریروں دونوں طریقوں سے جاری رہا۔ مدینہ، مکہ، کوفہ، بصرہ، شام اور مصر ہر جگہ لوگ مشکل مسائل کے سلسلے میں بعض جلیل القدر صحابہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ جو وہاں مسند فتویٰ پر متمکن ہوتے، یہ سلسلہ تقریباً پہلی صدی کے اخیر تک جاری رہا پھر تابعین اور تبع تابعین کا دور شروع ہوتا ہے اس دور میں منصب افتاء اجلہ تابعین و تبع تابعین کے سپرد رہا۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو صحابہ کرام کی موجودگی میں بھی فتویٰ دیتے تھے۔ مثلاً سعید بن المسیب رحمہ اللہ اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ وغیرہ۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ہر علاقے میں عہد بہ عہد تمام مصیتوں کے نام اپنی کتاب میں ذکر کئے ہیں [3] جن کی تفصیل یہاں طوالت کی موجب ہو گی۔ مختصراً اتنا ذکر کر دینا کافی ہے۔
[1] الإحكام في اصول الاحكام 4/176، اعلام الموقعين 1/18-19، الجواهر المضية 2/415، كشف الظنون 2/1262 [2] الجواهر المضية 2/418 [3] أصحاب الفتيا ص 334-335 ابن حبان (م 344ھ) نے اپنی کتاب ’’مشاهير علماء الأمصار‘‘ میں مفتیوں کے علاوہ دیگر مشاہیر علماء کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اسی موضوع پر علامہ ذہبی (م 748ھ) کی ایک کتاب ’’الأمصار ذوات الأثار‘‘ بھی ہے لیکن اس میں خاص طور پر محدثین اور ناقلین حدیث کا ذکر ہے۔