کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 44
قرآن مجید میں جن فتاویٰ کا ذکر آیا ہے ان کے سوالات کبھی تو ’’يَسْتَفْتُوْنَكَ‘‘[1]کے صیغے سے شروع ہوتے ہیں اور کبھی ’’يَسْأَلُوْنَكَ‘‘[2]سے۔ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت داری سے لوگوں تک پہنچا دیا ان کے علاوہ وہ فتاویٰ جو آپ نے مختلف اوقات میں صحابہ کرام کے سوالات کے جواب کے طور پر دیے، حدیث کی کتابوں میں منتشر صورت میں موجود ہیں۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (م 751ھ) نے اپنی کتاب میں ان کا ایک بڑا حصہ ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔[3] صحابہ کرام اور فتویٰ عہد رسالت میں اور اس کے بعد بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے اجتہاد سے بعض مشکل دینی مسائل کے بارے میں فتاویٰ صادر فرمائے۔ علامہ ابن حزم (م 456ھ) نے ایسے 142 صحابہ اور 20 صحابیات کا ذکر کیا ہے جن سے فتاویٰ منقول ہیں۔ [4] اور انہیں فتاویٰ کی کثرت و قلت کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے سب سے زیادہ جن سے فتاویٰ منقول ہیں وہ بالترتیب یہ سات ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ۔ دوسرے حصہ میں 20 ایسے صحابہ ہیں جن میں سے ہر ایک کے فتاوے کا ایک
[1] دیکھئے حوالہ سابق [2] سورہ بقرہ، آیت نمبر 189، 215، 217، 219، 220، 222 سورہ مائدہ، آیت نمبر 4 سورہ اعراف، آیت 187، سورہ انفال، آیت نمبر 1 [3] دیکھئے: اعلام الموقعين عن رب العالمين 4/266-414۔ اردو ترجمہ بنام ’’دین محمدی‘‘ 1/69،149 نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے غالباً اسی پر اعتماد کر کے فارسی میں ’’فتاویٰ امام المتقین‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ [4] اصحاب الفتیا، مطبوعہ درآخر: جوامع السيرة 319-323 اور الإحكام في اصول الاحكام 4/176، بعد کی اکثر کتابوں میں مفتی صحابہ و تابعین کے بارے میں معلومات ابن حزم سے قدرے اختلاف کے ساتھ نقل کی گئی ہیں۔ دیکھئے: تلقيح فهرم اهل الاثر لابن الجوزي ص 44 (قاہرہ 1975) إعلام الموقعين 1/11-28، الجواهر المضيّة للقرشي 2/413-417 (طبع حیدر آباد)