کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 43
کتب فتاویٰ اور ان کی قدر و قیمت اس فن میں علمائے ہند و پاک کی تالیفات اور اخیر میں مولانا شمس الحق عظیم آبادی کے مجموعہ فتاویٰ پر تبصرہ کیا گیا ہے، تاکہ فتاویٰ کے مطالعہ سے قبل اجمالی طور پر اس فن کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل ہو جائیں جن سے فتویٰ نویسی کے میدان میں صاحبِ فتاویٰ کا مقام متعین کرنے میں مدد ملے اور ان کے فتاویٰ کی امتیازی خصوصیات واضح طور پر سامنے آ سکیں۔ (1) فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے شروع ہوتا ہے، چودہ صدی کے طویل عرصے میں علماء نے اس شعبے کی دینی اہمیت کے پیش نظر ہمیشہ ہی اس کا خصوصی اہتمام کیا ہے تمام مسلمان اپنے اکثر دینی و دنیاوی امور کے متعلق پیش آمدہ مشکلات اور مسائل کے حل کی خاطر برابر ان کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں ان مسائل کا تعلق خواہ عقائد و عبادات سے ہو یا معاملات و اخلاق سے، یا آپسی اختلافات و نزاع سے ہر حال میں وہ شریعت کا حکم معلوم کرنے کے لئے مفتیوں سے مدد لیتے رہے ہیں اور انہوں نے افتاء کو اپنا فریضہ منصبی تصور کرتے ہوئے ہمیشہ ہی ان کی رہنمائی کی ہے افتاء کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے، قرآن مجید میں دو جگہ لوگوں کے فتویٰ پوچھنے کے جواب میں اللہ کے فتویٰ دینے کا ذکر آیا ہے۔ [1]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور دیگر ائمہ دین و علمائے امت نے اس ذمہ داری کو بخیر و خوبی نبھایا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور جاری رہے گا۔ اس عرصے میں استفتاء اور افتاء کے طریقے بدلتے رہے، عہد رسالت میں فتاویٰ کا سلسلہ اکثر و بیشتر زبانی طور پر ہی چلتا رہا۔ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے اس کا جواب کبھی تو قرآنی آیات کی صورت میں ملتا تھا اور کبھی وحی کی اساس پر اپنے اجتہاد سے فتویٰ دیتے تھے۔
[1] سورہ النساء، آیت نمبر 127، 176