کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 41
کچھ فتاویٰ جات کے بارے میں لغوی معنی: عربی زبان میں فَتْوٰي (یا فُتْوٰي) اور فَتْيَا، اِفْتَاء سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اظہارِ بیان و رائے دہندگی کے ہیں۔ [1]مصدری معنی (رائے دہندگی) کے علاوہ خود (رائے) اور (رائے دہندہ کے کام) پر بھی فتویٰ اور فتیا کا اطلاق ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں نے ان دونوں کے درمیان فرق بیان کیا ہے، چنانچہ فتویٰ کو صرف ’’دی ہوئی رائے کا مترادف‘‘ قرار دیا ہے، اور فتیا کو باقی دونوں معانی کے لئے خاص بتایا ہے۔ [2] مگر لغت کی کتابوں سے اس تفریق کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی صدیوں میں فتویٰ کے بجائے لفظ فتیا کا استعمال عربوں کے ہاں زیادہ رہا ہے۔ کتب حدیث میں بھی فتویٰ کے بجائے فتیا کا لفظ ملتا ہے۔ [3] لغت کی کتابوں میں کسی ایسی عبارت یا شعر کا ذکر نہیں جس میں فتویٰ کا لفظ استعمال ہوا ہو، اگرچہ علماء و فقہاء نے بعد میں دونوں ہی الفاظ عام طور پر استعمال کئے ہیں اور اس کی جمع فَتَاوٰي یا فَتَاوِي معروف رہی ہے۔ [4] قرآن مجید میں بھی گیارہ مقامات پر اس کے مشتقات وارد ہوئے ہیں جو استفتاء (سوال پوچھنے) اور اِفْتَاء (جواب کی وضاحت کرنے) کے مختلف صیغے ہیں۔ [5] اسی سے پوچھنے والے کو مُسْتَفْتِيْ اور فتویٰ دینے کو مُفْتِيْ کہتے ہیں۔ [6] اصطلاح: میں فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سے متعلق دلائل کی روشنی
[1] دیکھئے: لسان العرب، بذیل مادہ ’’فتی‘‘ [2] E. Tyan in: Encyclopaedia of Islam ii, 866 Art. “Fatwa” [3] دیکھئے: المعجم المفهرس لألفاظ الحديث النبوي 5/68 (یہاں متعدد احادیث کا ذکر ہے) [4] دیکھئے: نور البصر، ص 148، كشف الظنون 2/1218 [5] ديكهئے: المعجم المفهرس لألفاظ القرآن الكريم: ص 512 [6] دستور العلماء 3/13